اتحادی حکومت کے چھ ماہ: ’اقتصادی صورت حال گڑبڑ ہے‘

ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) حکومت کے پہلے چھ مہینوں کے دوران پاکستان کی معیشت غیر فعالیت، جمود اور دباؤ کا شکار رہی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نو اکتوبر 2022 کو میڈیا سے گفتگو کے دوران (تصویر: پی ایم ایل این، فیس بک آفیشل)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور محمد رفیق سوچ رہے ہیں کہ آنے والی یکم کو وہ اپنے تین بچوں کی سکول فیس کا بندوبست کیسے کر پائیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے اصرار پر وہ بولے: ’ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس حکومت کے آنے سے ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی، لیکن چھ مہینوں میں تو ایسا کچھ ہوا نہیں۔‘

محمد رفیق نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ان کی آمدن پر برا اثر پڑا، جبکہ دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا، جس سے کمائی اور اخراجات کے درمیان توازن برقرار رکھنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں محمد رفیق جیسے کم آمدنی والے لاکھوں افراد وزیر اعظم شہباز شریف حکومت کی ملکی معیشت کو درست سمت دینے میں ناکامی پر دلبرداشتہ اور ناامید نظر آتے ہیں۔

پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی حکومت کو ماہ رواں کے دوران چھ مہینے پورے ہو گئے ہیں اور اس عرصے میں پاکستان میں افراط زر، بے روزگاری، ڈالر، پیٹرولیم مصنوعات اور اشیا ضروریہ کی قیمتوں کی اڑان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور اقتدار سے زیادہ مختلف نہیں رہی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اس سال 11 اپریل کو حلف اٹھانے کے فوراً بعد قومی اسمبلی سے خطاب میں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور زرعی شعبے کو مراعات دینے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا تھا، جبکہ جولائی میں رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی عام آدمی کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی۔

موسم گرما میں شدید بارشوں اور اور ان کے نتیجے میں سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی، جس سے ملکی معیشت کو بے اندازہ نقصان پہنچا۔

معیشت کو قدرتی آفت سے پہنچنے والے نقصانات کے اثرات بھی آخر میں عام آدمی خصوصا کم آمدن والے طبقات کو برداشت کرنا پڑے۔

ماہرین معاشیات کے خیال میں تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود گذشتہ چھ مہینوں کے دوران پاکستان کی معیشت غیر فعالیت، جمود اور دباؤ کا شکار رہی، جس کے باعث پاکستان میں ڈالر کی کمی، درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن اور افراط زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا تھا ’گذشتہ چھ مہینوں کے دوران پی ڈی ایم حکومت کی معاشی پالیسی گڑبڑ کا شکار رہی ہے، جس کے باعث ملکی معیشت اس وقت شدید بحران سے دو چار ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت دنیا میں پاکستان پر اعتماد کا فقدان ہے، جس کے باعث دوسرے ملک قدرتی آفت سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے بھی ہاتھ بڑھانے سے کترا رہے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ چھ مہینے پہلے جب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت کی بین الاقوامی صورت حال کسی بڑی تبدیلی کے لیے موضوع نہیں تھی۔

مندرجہ ذیل سطور میں ہم ایسی بنیادی وجوہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے، جن کے باعث پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی موجودہ حکومت کے پہلے چھ مہینوں کے دوران ملکی معیشت کو چیلنجوں کا سامنا رہا۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کر دی

گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت کا انحصار غیر ملکی امداد اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر رہنے لگا ہے اور اسی لیے پی ڈی ایم حکومت اور ان کے پیش رو وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کے دوران بھی انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ یا آئی ایم ایف کی بازگشت بہت زیادہ سنائی دیتی رہی۔

سیاسی بحران اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ملک کو ممکنہ ڈیفالٹ کی صورت حال سے بچانے کی خاطر آئی ایم ایف نے اس سال اگست میں پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کا قرض دیا تھا۔

مستقبل قریب میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کسی فوری مالی امداد کی وصولی کا امکان موجود نہیں ہے۔

وفاقی وزارت خزانہ کے سابق مشیر خاقان نجیب کے خیال میں پی ڈی ایم حکومت کی تشکیل کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بہت زیادہ تاخیر سے کام لیا گیا، جس کے باعث ملک میں زرمبادلہ خصوصا امریکی ڈالرز کی آمد بری طرح متاثر ہوئی۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے پہلے تین مہینوں کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر محض 18 فیصد رہ گئے تھے، جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی کے رجحان میں کمی دیکھنے کو ملی۔

اسلام آباد میں انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے لیے اقتصادیات پر لکھنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے خیال میں پی ڈی ایم حکومت کے پہلے چھ مہینوں میں سب سے بڑا بحران غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور اقتدار میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام رک چکا تھا اور صورت حال کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک کمی واقع ہو رہی ہے۔

تاہم مہتاب حیدر وزیر اعظم شہباز شریف کے پہلے وزیر خزانہ کی ان کوششوں کو سراہتے ہیں جن کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہوا۔

’اگرچہ اس حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کی لیکن اچھی بات ہے کہ یہ لوگ پروگرام بحال کروانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

ڈالرز کی کمی اور اس کی قیمت میں اضافہ

موجودہ وفاقی حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج گذشتہ چھ مہینوں کے دوران امریکی ڈالر کی بڑھتی قدر اور حکومتی خزانے میں اس اہم کرنسی کی کمی رہی ہے۔

مہتاب حیدر کے مطابق حکومت پاکستان کو سال رواں کے دوران مجموعی طور پر 32 ارب ڈالرز درکار ہیں، جن میں سے 23 ارب ڈالرز غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور دس سے 12 ارب کرنٹ اکاونٹ خسارے کی نذر ہو جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان گذشتہ چھ مہینوں میں ڈالرز کمانے میں ناکام رہا اور اس سلسلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واشنگٹن یاترا بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ملکی خزانے میں امریکی ڈالرز کی کمی کے باعث منڈی میں اس کی قیمت میں بھی بے ہنگم اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے خام مال کی قیمتوں کے علاوہ پاکستان درآمد اور تیار کی جانے والی اشیا کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ واقع ہوا۔

اس سال مارچ میں ختم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 8.9 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے۔

اس سال اگست میں آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط اور چین سے ملنے والے ڈالروں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ بہتری واقع ہو سکی تھی۔

تاہم سات اکتوبر کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کا حجم 7.5 ارب ڈالر ہے۔

پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ گذشتہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہونا شروع ہوا، تاہم پی ڈی ایم حکومت کے پہلے دو تین مہینوں میں ڈالر کو جیسے پر لگ گئے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے دوران پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت گذشتہ مہینے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی جب امریکی کرنسی کی انٹر بینک قیمت تقریباً 245 روپے تک پہنچ گئی تھی۔

مالی سال 2022۔23 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 21.3 فیصد سے کم ہو کر 9.221 ارب ڈالر رہ گیا، جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 11.719 ارب ڈالر تھا۔

خاقان مجیب کے مطابق یہ ایک اچھا رجحان دیکھنے کو ملا، جبکہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں 26 فیصد یا چھ کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی غیر یقینی صورت حال سرمایہ کاری کو ٹھیس پہنچاتی ہے، خاص طور پر جب غیر ملکی فنڈ کے بہاؤ کے لیے عالمی منظرنامہ کم سازگار ہو۔

خاقان مجیب کا مزید کہنا تھا کہ ڈالر کی کمی نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا جس میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ اس سال جولائی میں ساڑھے 16 فیصد کم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ کا اعتماد بحال کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے واسطے پاکستان کے لیے ڈالر میں اضافہ بہت ضروری ہے، اور اس سلسلے میں انہوں نے فاسٹ ٹریک منصوبوں کے علاوہ سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں نئے پراجیکٹس شروع کرنے کی تجاویز پیش کیں۔

سیلاب اور افراط زر

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان میں خوردنی اشیا کی افراط زر کی شرح 25 فیصد تھی، جسے موجودہ حکومت نے 12 فیصد تک لانے کا عندیہ دیا تھا۔

مہتاب حیدر کے مطابق شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے ملک میں افراط زر 23 سے 25 فیصد کے درمیان ہے، جو بہت زیادہ ہے، اور اس سے متاثر صرف کم آمدنی والے طبقات ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی بھی ایک وجہ ملکی خزانے میں زرمبادلہ یا امریکی ڈالرز کی کمی ہی ہے۔

سلمان شاہ کا خیال تھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو مالی سال 2022۔23 میں تمام وسائل کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی طرف موڑ دینا چاہیے تھا، جب کہ ایسا نہ کر کے پاکستان نے دنیا کا اعتماد کھو دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے ہمیں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، لیکن کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کر رہا۔‘

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جون میں بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے متاثرین سیلاب کے لیے بڑی رقوم مختلف مدوں میں مختص کی ہیں، اور اس سلسلے میں انہوں نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا خصوصی ذکر کیا تھا۔

ڈیفالٹ کی صورت حال

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طور پر پاکستانی معیشت کے ڈیفالٹ ہونے کے اشارے مل رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی اقتصادی صورت حال میں گڑبڑ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے مالی سال 2022۔23 کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا، لیکن اس میں اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھا دیے ہیں۔

ماہر معاشیات کے مطابق ایسے اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافے کے علاوہ ترقی یا شرحِ نمو بالکل رک جاتی ہے، اور بے روزگاری تمام تر حدود سے باہر چلی جاتی ہے۔

تاہم پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کچھ روز قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کی صورت حال کا سامنا قطعا نہیں ہے۔

انہوں نے دعوی کیا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے دور وزارت میں ہی ڈیفالٹ کا خطرہ بڑیہ حد تک ٹال دیا گیا تھا۔

حل کیا ہے؟

خاقان مجیب کا کہنا تھا کہ ایک نظر ثانی شدہ میکرو فریم ورک آئی ایم ایف کے ساتھ مزید مذاکرات کی بنیاد بنا سکتا ہے، جبکہ جاری پروگرام کے ذریعے بہتر سپورٹ اور سیلاب کی مالی اعانت کے لیے رعایتی کھڑکی کو فروغ دینے سے بحران کو کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے۔

سلمان شاہ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کو 50 سال کے مسائل درپیش ہیں اور ان کا حل بہت آسان نہیں ہو سکتا۔

تاہم انہوں نے اخراجات اور غیر ضروری درآمدات کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کو برآمدات کے سہارے چلانا چاہیے جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے علاوہ ملک میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت