دیوالی: سامانِ آتش بازی فروخت کرتے سمگلرز کے خلاف کارروائی

کار کی ڈگی، گرد آلود گودام، پرچون کی دکانوں کے عقب میں خفیہ جگہوں سمیت دہلی پولیس ہر جگہ ان سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جو غیر قانونی قرار دیے گئے آتش بازی کا سامان فروخت کر رہے ہیں۔

23 ستمبر 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک بھارتی مزدور احمد آباد کے مضافات میں  پٹاخے تیار کرتے ہوئے (اے ایف پی)

اس دیوالی پر دہلی میں حکام آتش بازی پر ابھی تک کی سخت ترین پابندی نافذ کر رہے ہیں۔ یہ کوشش برسوں کی ان کوششوں کے بعد دوبارہ کی جا رہی ہے جو اب تک بارآور ثابت نہیں ہو سکیں۔

اس سال دیوالی کا تہوار پیر کو منایا جائے گا اور اس موقعے پر انڈیا بھر میں قومی تعطیل ہے تاہم ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آتش بازی پر پابندی کے باوجود اتوار سے ہوا کا معیار (آلودگی کا تناسب)  ’انتہائی خراب‘ کیٹیگری تک گر جائے گا۔

اس کیٹیگری کی ہوا میں زیادہ دیر رہنا کسی کی بھی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے لیکن خاص طور پر بچوں، بوڑھوں اور پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے۔

دہلی کی ہوا کا معیار ابھی تک اس خطرناک سطح پر نہیں پہنچا ہے جس کی اکتوبر کے اختتام تک یہاں کے رہائشیوں کو توقع تھی۔

دہلی کے مرکز میں واقع انڈیا کے محکمہ موسمیات سے وابستہ ڈاکٹر وی کے سونی بتاتے ہیں کہ ایسا موسمی حالات کی وجہ سے ہے اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں، کیوں کہ ہوائیں مشرق کی طرف چل رہی ہیں یعنی ہوا شمالی انڈیا کے میدانی علاقوں آلودگی کو دہلی کے گرد جمع کرنے کے بجائے بحیرہ عرب کی طرف لے جا رہی ہے۔ 

لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ یہ صرف ایک عارضی مہلت ہے چھوٹی سی کھڑکی سے نظر آنے والا نیلا آسمان جلد ہی دھندلے نارنجی رنگ بدلنے کے لیے تیار ہے جو اگلے کئی مہینوں تک قائم رہے گا۔

اگرچہ دیوالی پر ہونے والی آتش بازی کو اکثر سردیوں میں سموگ کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جو دہلی کو دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دارالحکومت بناتی ہے لیکن درحقیقت بہت سے ایسے عوامل ہیں جو اتنے لمبے عرصے تک ہوا کا معیار گرانے کا سبب بنتے ہیں۔

جیسا کہ سال کے اس وقت سڑکوں پر ٹریفک بڑھ جاتی ہے، پڑوسی ریاستوں میں کسان فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں اور ٹھنڈے موسمی حالات ان کو فضا میں برقرار رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر سونی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’دہلی کے شہریوں کو اتوار کی شام سے شروع ہونے والی انتہائی غیر صحت بخش ہوا کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے کیوں کہ گاڑیوں سے دھویں کے اخراج میں اضافے اور ہزاروں لوگوں کے تہوار کے موقع پر شہر میں جمع ہونے سے سڑکوں پرٹریفک کا رش ہو گا۔‘

آتش بازی، جسے انڈیا میں پٹاخے کہا جاتا ہے، نہ صرف فضائی آلودگی کی وجہ بنتی ہے بلکہ گذشتہ سالوں میں ان کا استعمال یقینی طور پر ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) میں گراوٹ کا باعث بنا ہے۔ پٹاخوں پر پابندی کی پچھلی کوششوں کے باوجود یا گذشتہ سالوں میں کم آلودگی والے نام نہاد ’ماحول دوست‘ آتشبازی کے باوجود دیوالی کی رات ہمیشہ گلے میں خارش، پانی بھری آنکھوں اور منہ میں دھاتی ذائقے کے ساتھ گزرتی ہے۔

اس سال دہلی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ پٹاخے بیچتے ہوئے پکڑے جانے والوں کو بھاری جرمانے اور جیل کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ستمبر میں تہوار سے چند ہفتوں قبل پٹاخوں کی خرید و فروخت اور اس کی تجارت پر اب تک کی سخت ترین پابندی ہے۔

عوامی معلومات کی مہم بھی چلائی گئی ہے اور برانڈز مختلف اشتہارات چلا رہے ہیں جو لوگوں کو دیوالی کو دوسرے کم آلودگی والے طریقوں سے منانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

اس کے باوجود ابھی بھی بہت سے ہندو آتش بازی کو تہوار کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتے ہیں اور بہت سارے مقامی افراد اور تاجر پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔

دیوالی سے پہلے کے دنوں میں گوگل پر کی جانے والی سرچ ’دہلی میں پٹاخے نزدیک ترین کہاں دستیاب ہیں‘ سے درجنوں فروخت کنندگان تک پہنچ جاتے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ نے ان میں سے 10 فروخت کنندگان کو کال کی جنہوں نے آن لائن رابطے کی تفصیلات شیئر کر رکھی تھیں اور پتہ چلا کہ ان میں سے کم از کم چار (دکاندار) پٹاخوں سے لے کر سپارکلر اور سکائی شاٹس سے لے کر 10 ہزار چھوٹے بموں تک ہر طرح کے پٹاخے فراہم کرنے کے لیے تیار تھے۔

انسٹاگرام پر ایک اور فوری تلاش سے دو دکانداروں کا پتہ چلا جو ’گرین‘ کریکر فروخت کرنے کے لیے تیار تھے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ماحول دوست پٹاخے ہیں جو کم دھواں خارج کرتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اندر ہم مزید چھ دکاندار تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ایسی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے تیار تھے جنہیں حکام نے سختی سے غیر قانونی قرار دیا تھا۔

کچھ نے ہوم ڈیلیوری کی بھی پیشکش جب کہ دو نے درمیانی راستے پر ڈراپ آف پوائنٹ پر ڈیلیوری کی پیشکش کی۔ تاہم دی انڈپینڈنٹ نے ان سے کچھ نہیں خریدا۔

دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے کے لیے حتی الامکان محنت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سادہ لباس میں افسران کے چھاپوں اور شہر کے مختلف حصوں میں خفیہ معلومات کا پیچھا کرتے ہوئے اب تک آٹھ ہزار کلو گرام سے زیادہ پٹاخے ضبط کیے گئے ہیں۔

دہلی پولیس کے سپیشل کمشنر دیپیندر پاٹھک نے بتایا: ’ہم کچھ بڑی معلومات جمع کر رہے ہیں اور پانچ سو سے ایک ہزار کلوگرام تک پٹاخے بیچنے والوں کو تلاش کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق سب سے زیادہ ممنوعہ سامان گوداموں سے برآمد ہوا لیکن افسران نے پٹاخوں کے بہت سے کارٹنز کو ذخیرہ کرنے اور انہیں فروخت کرنے والی پرچون کی دکانوں کے پیچھے خفیہ حصوں اور موبائل کاروں کی ڈگیوں سے ہونے والی فروخت کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔

ایک گرفتار شخص نے کاغذ کی پرچیوں کے ذریعے آتش بازی کا سامان گاڑی پر فروخت کرنے کا اعتراف کیا کہ کیسے وہ پٹاخوں کے متلاشی گاہگوں سے رابطہ کر کے انہیں اپنی کار تک لے آتے جو ایک مکینک ورکشاپ کے باہر پارک کی ہوتی۔

 پولیس نے کہا کہ وہ اس طریقے سے مطلوبہ مقدارمیں پٹاخوں کا آڈر لے کر آتے اور دو یا تین گھنٹے بعد کریکرز کا پارسل ان کے حوالے کر دیتے۔

دیپیندر پاٹھک کا کہنا ہے کہ ان کا مصروف ترین دن پیر کو ہو گا اور لوگوں کو پٹاخے خریدنے اور انہیں پھوڑنے سے روکنے کے لیے گشت چوبیس گھنٹے جاری رہے گا۔

گرفتار افراد کے بارے میں وہ کہتے ہیں ان کو سزا لازمی ملنی چاہیے لیکن وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ہندو قوم پرستانہ جذبات میں اضافے کے وقت یہ معاملہ سیاسی طور پر حساس بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پیغام بھیجنا ضروری ہے اور ساتھ ہی ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ پٹاخوں کو ثقافت کا ایک عنصر سمجھا جا رہا ہے۔ پابندی بذات خود سیاست کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا حکم 2020 میں انڈپینڈنٹ نیشنل گرین ٹربیونل نے دیا تھا اور شہر یا ریاست سے قطع نظر یہ وفاق کے ادارے کی جانب سے جاری کردہ اہم رہنما اصول ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔‘

دہلی کی تقریباً 80 فیصد آبادی ہندو ہے اور اگرچہ  قوم پرست نریندر مودی کی قومی سطح پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی کی ریاست میں اپوزیشن میں ہے جس نے ہندوؤں کے دیوالی کو آتش بازی کے ساتھ منانے کے حق کا دفاع کرنے کا مسئلہ اٹھایا ہے۔

بی جے پی نے دہلی کی ’عام آدمی پارٹی‘ کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے پٹاخوں پر پابندی کو مزید سخت کرتے ہوئے دیوالی کا ’مکمل جشن‘ منانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ ہندو افسانوں یا مذہبی کتابوں میں پٹاخوں کا کوئی حوالہ نہیں ہے لیکن اسے روشنیوں کے تہوار کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو روایتی طور پر دیے کی روشنیوں اور دیگر سرگرمیوں کے علاوہ رنگ برنگے پاؤڈر کے ساتھ رنگولی کی تصویر کشی کرتا ہے۔

بی جے پی کی دہلی یونٹ کے ترجمان تاجندر بگا نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ ہم ہندوؤں پر ایک واضح حملہ ہے جو اپنے طریقے سے دیوالی منانا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آلودگی ایک مسٔلہ ہے لیکن ہمیں پٹاخے پھوڑنے کے لیے چند گھنٹوں کی مہلت کیوں نہیں دی جاتی۔‘

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بگا نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کا موازنہ ان مسلم شہنشاہوں سے کیا ہے جنہوں نے 16ویں صدی سے 18ویں صدی تک ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کچھ لوگ مغل حکمرانوں پر اس دور میں ہندو تہواروں کی تقریبات کو روکنے کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ مورخین اس پر اختلاف کرتے ہیں۔

بگا کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں ایک بچہ یہ کہہ رہا ہے ’اے مغلوں کی اولاد، تم ہمیں دیوالی منانے کا طریقہ سکھاو گے؟ اب دیکھو‘ اور اس کےساتھ وہ ایک ممنوعہ پٹاخہ جلانے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔

آتش بازی کے کچھ حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ پڑوسی زرعی ریاست پنجاب میں کسانوں کی جانب سے موسمی فصلوں کی باقیات کو جلانے سے کہیں کم آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔

انڈیا میں فصلوں کی باقیات جلانے پر بھی پابندی ہے تاہم یہ بھی سیاسی طور پر بھی حساس مسٔلہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اس پر جرمانے اور پابندی کے نفاذ میں سختی کرنے کو تیار نہیں ہیں کیوں کہ انہیں کسانوں کی انتخابی حمایت سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی پر فصلوں کی باقیات کو جلانے کے اثرات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ ایک حالیہ مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ دہلی میں ہر سال فضائی معیار کا بحران زیادہ تر اس کے اپنے آلودگی کے ذرائع سے پیدا ہوا ہے نہ کہ پڑوسی ریاستوں سے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیق کی مصنفہ اور پنجاب ایگریکلچر یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر پونیت کور کنگرا کا کہنا ہے کہ دہلی نومبر سے جنوری تک اپنے بدترین ایئر کوالٹی انڈیکس کا سامنا کرتا ہے اور یہ بنیادی طور پر تہواروں اور موسمی حالات کی وجہ سے ہوتا ہے جو آلودگی کو کم از کم فروری تک ٹھنڈے ماحول میں برقرار رکھتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اپریل اور مئی میں موسم گرما کے مہینوں میں بھی فصلوں کی باقیات کو بھی جلایا جاتا ہے تاہم اس موسم کے دوران دہلی کی فضا میں دھواں زیادہ نہیں رہتا جس سے پتہ چلتا ہے کہ دارالحکومت کے فضائی بحران کے پیچھے موسمی حالات کارفرما ہیں۔

پیر کو دہلی کے اے کیو آئی کی ’انتہائی خراب‘  پیشن گوئی فروری کے بعد سے جولائی میں دھول کے طوفان کے دوران چند غیر معمولی دنوں کو چھوڑ کر یہاں کی بدترین ہوا ہو گی۔

ڈاکٹر کنگرا کا کہنا ہے کہ دہلی اس لیے اس مصیبت سے دوچار ہے کیونکہ اس کے اپنے بنائے گئے آلودگی کے ذرائع، یعنی زیادہ تر گاڑیاں اور شہر کے اندر اور باہر کارخانے بڑے پیمانے پر آلودگی کا اخراج کرتے ہیں۔ ان کے مطالعے میں پچھلے تین سالوں میں تمام مہینوں کے دوران دہلی کے فضائی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

محکمہ موسمیات کے سینیئر رکن ڈاکٹر سونی کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے دہلی کی فضائی آلودگی میں صرف ٹرانسپورٹ کے شعبے نے 20 سے 30 فیصد حصہ ڈالا ہے اور یہ 40 فیصد تک بڑھ سکتا ہے جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت دارالحکومت میں زہریلی سموگ میں لپٹی ایک اور سردی کو روکنے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں صرف بوڑھوں اور بچوں سے درخواست کر سکتا ہوں کہ وہ ضرورت کے علاوہ گھروں سے ہرگز نہ نکلیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا