پاکستان ریلوے تکنیکی اعتبار سے خسارے میں نہیں: چیئرمین

چین میں تیار ہونے والی 46 بوگیاں 15 دسمبر تک پاکستان پہنچ جائیں گی۔ وطن آنے پر ان کو ریلوے کے نظام میں شامل کر دیا جائے گا۔

پاکستان ریلوے کے بجٹ کا 67 فیصد تنخواہوں اور پنشن میں صرف ہو جاتا ہے: چیئرمین(اے ایف پی)

پاکستان ریلوے کے چیئرمین ظفر زمان رانجھا کا کہنا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے پاکستان ریلوے خسارے میں نہیں ہے اور وہ اپنی آپریشنل کاسٹ سے زیادہ آمدنی کماتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے جانے والے تحریری جوابات میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ریلوے میں ماضی کے برعکس اب میرٹ پر بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے بری طرح متاثر سبی سے کوئٹہ ریلوے لائن پر سروس نئے سال کے آغاز سے پہلے بحال ہو جائے گی۔

 کوئٹہ تک آپریشن کب بحال ہو گا؟

ظفر زمان رانجھا: سبی سے کوئٹہ سیکشن پر ایک پل سیلابی بارشوں سے شدید متاثر ہوا تھا۔ یہ پل کوئٹہ تک بذریعہ ٹرین پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس پل کے متاثر ہونے سے کوئٹہ کا دوسرے صوبوں سے ریل کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس وقت پل کی تعمیر کا کام جاری ہے جو دسمبر میں مکمل ہو جائے گا۔ نئے سال کے آغاز سے پہلے کوئٹہ کا ملک بھر سے ریل کا رابطہ بحال ہو جائے گا۔

 حال ہی میں مسافر ٹرینوں کے کرائے کیوں بڑھائے گئے؟

ظفر زمان رانجھا: ٹرین پاکستان کا سستا اور محفوظ ترین ذریعہ سفر ہے۔ اس کی آپریشنل کاسٹ، فیول کی بدلتی قیمتوں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کرائے بڑھانے کی پہلی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھی ہوئی قیمت ہے۔ دوسری وجہ سیلابی بارشوں سے پاکستان ریلویز کو پہنچنے والا سوا پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہے۔

’ہم اس نقصان کو قرض لے کر پورا نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے کرایوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ پاکستان ریلوے ملک بھر میں سستے ترین سفر کی سہولت فراہم کرتا رہے اور اپنے معزز مسافروں پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالے۔‘

یہی وجہ ہے کہ اب بھی پاکستان ریلوے کے کرائے دوسرے ذرائع نقل و حمل سے بہت حد تک کم ہیں۔

 ریلوے میں تنخواہیں اور پنشن کیوں لیٹ ہوتی ہیں؟

ظفر زمان رانجھا: پاکستان ریلوے میں تنخواہیں اور پنشن پچھلے تین سے چار ماہ کے دوران تاخیر سے ملتی رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیلابی بارشوں سے کئی مقامات پر ٹرین آپریشن کا بند ہونا ہے۔ آپریشن بند ہونے سے پاکستان ریلوے کو ہونے والی آمدنی میں اچھا خاصا فرق پڑا۔

’ہم نے اسی آمدنی سے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ریونیو میں کمی کی وجہ سے یہ ادائیگی لیٹ ہوگئی۔ اب ملک بھر میں بتدریج ٹرین آپریشن بحال ہو رہا ہے، سو آمدنی بھی اپنے معمول پر آ رہی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ آئندہ تنخواہیں اور پنشن بھی غیرمعمولی تاخیر کا شکار نہیں ہوں گی۔‘

پاکستان ریلویز خسارے کا شکار کیوں ہے؟

ظفر زمان رانجھا: تکنیکی اعتبار سے پاکستان ریلوے خسارے میں نہیں ہے۔ ہم اپنی آپریشنل کاسٹ سے زیادہ آمدنی کماتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان ریلوے کے بجٹ کا 67 فیصد تنخواہوں اور پنشن میں صرف ہو جاتا ہے۔

’اس دو تہائی سے زیادہ خرچے کو جب ہماری کارکردگی سے منسلک کیا جاتا ہے تو ایسے لگتا  ہے کہ جیسے ریلوے بہت بڑے خسارے میں ہے۔ درحقیقت پچھلے مالی سال میں بھی ہم نے اپنے ہدف سے تین ارب سے زیادہ ریونیو حاصل کیا تھا جو پاکستان ریلوے کے ملازمین کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

اگر تنخواہوں، پینشن اور حکومتی سپورٹ کو اخراجات میں شامل کیا جائے تو دنیا کا کوئی بھی ریلوے نظام اس وقت منافع میں نہیں ہے۔

 ریلوے کی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟

دنیا کے بڑے ریلوے ادارے جب اپنے ریونیو ذرائع کا ذکر کرتے ہیں تو پیسنجر، فریٹ سورسز کے ساتھ لیزنگ آف لینڈ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک بھی انہی بنیادوں پر ریلوے سے ریونیو حاصل کر رہا ہے۔

آپ کے علم میں لاتا چلوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان ریلوے کو اپنی زمینوں کو ایک فیصلے کے تحت کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ ہم اس ضمن میں معزز عدالت میں ریویو پٹیشن دائر کر رہے ہیں۔

اگر عدالت عظمیٰ سے اجازت ملی تو پاکستان ریلوے اپنی زمینیں دیگر ممالک کی طرح کمرشل مقاصد کے لیے بھی استعمال کرے گا جس کا فائدہ ادارے کو مزید ریونیو جنریشن کی صورت میں حاصل ہوگا اور پاکستان ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد ملے گی۔

 منافع میں چلتی ٹرینیں نجی آپریٹرز کو کیوں دی جاتی ہیں؟

ظفر زمان رانجھا: پرائیویٹ آپریٹرز کو وہی ٹرینیں دی جاتی ہیں جن کی بڈنگ پاکستان ریلویز کو حاصل ہونے والے بلند ترین ریونیو سے بھی اوپر ہو۔ یعنی ایک ٹرین سے پاکستان ریلوے پچاس روپے کما رہا ہے، اگر پرائیویٹ آپریٹر یہ بڑھا دے کہ وہ اسی ٹرین سے اکاون روپے کما کر ہمیں دے گا، تو اس میں کیا مضائقہ ہے! ہمارا ادارہ کبھی بھی کم بڈنگ پر ٹرین حوالے نہیں کرتا۔

 کیا پاکستان ریلوے بہتر ہو رہا ہے؟

ظفر زمان رانجھا: جی ہاں، میں پوری ذمہ داری سے یہ کہتا ہوں کہ پاکستان ریلوے دن بدن بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اس سلسلے میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی ادارے کی جانب توجہ لائق تحسین ہے۔ ہم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان ریلوے وفاق کے ان چند اداروں میں شامل ہے جہاں تمام دفاتر ہفتے میں کم از کم چھ روز کام کر رہے ہیں جبکہ آپریشنل نوعیت کے آفس بغیر کسی ہفتہ وار چھٹی کے 24 گھنٹے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ یہ سب ادارے کی بہتری کے لیے ہو رہا ہے۔

اب کوئی بھی بھرتی کسی تعلق کی بنیاد پر نہیں ہو رہی۔ میرٹ پر لوگ آ رہے ہیں اور یہی ریلوے کے عروج کا باعث بنیں گے۔

 چین سے نئی بوگیاں کب تک آ جائیں گی؟

ظفر زمان رانجھا: وزیر ریلوے نے ہدایت کی ہے کہ کہ چین میں تیار ہونے والی 46 بوگیاں 15 دسمبر تک پاکستان پہنچ جائیں۔ وطن آنے پر ان کو ریلوے کے نظام میں شامل کر دیا جائے گا۔ یہ بوگیاں آرام دہ، دلکش اور سفری سہولیات سے مزین ہیں۔ یہ کل 230 بوگیاں ہیں، پہلی کھیپ چین سے آئے گی جبکہ باقی پاکستان میں بنیں گی۔

 مسافروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ظفر زمان رانجھا: ’آپ ہمارا اثاثہ ہیں، پاکستان ریلوے آپ کے بغیر کسی اہمیت کا حامل نہیں۔ ہمارا ساتھ دیجیے، ٹرین کو گھر جیسا صاف ستھرا رکھنے میں عملے سے تعاون کریں اور ریلوے لائن کو صرف مقرر کردہ مقامات سے پار کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت