پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے دارالحکومت کے ’ریڈ زون‘ کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔
جہاں ایک طرف اس فیصلہ کو شیخ رشید نے ’ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کا ماسٹر پلان‘ کہا ہے وہیں دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ’حفاظت‘ کے طور پر بڑھایا گیا ہے۔
دارالحکومت ہونے کے ناطے اسلام آباد میں آئے روز احتجاج ہوتے رہتے ہیں مگر گذشتہ کچھ عرصے سے مقامی حکومت نے ان احتجاجوں کو اہم سرکاری و سفارتی عمارتوں سے دور رکھنے کے لیے ریڈ زون کی اصطلاح کا بار بار استعمال کیا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ریڈ زون کیا ہے؟ اس کی تشکیل کب ہوئی؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسلام آباد کو دارالحکومت بنائے جانے کے ساتھ ہی شہر کے ایک حصہ کو ریڈ زون کا درجہ دیا گیا؟ لفظ ’ریڈ زون‘ سے کیا مراد ہے؟
کیا ’ریڈ زون‘ کا کوئی قانونی وجود ہے؟
اسلام آباد انتظامیہ کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد کے کسی علاقے کو سرکاری طور پر ریڈ زون ڈکلیئر کیا ہی نہیں گیا۔ جب ریڈ زون ہی نہیں ہے تو ریڈ زون کی توسیع کیسے ہو گئی؟ ’آفیشلی ڈاکیومنٹ میں لفظ ریڈ زون ہے ہی نہیں اور نہ ہی اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی ریڈ زون ڈکلیئر کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لفظ ریڈ زون عام طور پر استعمال ہوتا آ رہا ہے اور یہ نام عدالتوں اور دفاتر میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے لیکن سرکاری طور پر کوئی ریڈ زون وضع ہی نہیں کیا گیا۔
لانگ مارچ کو روکنے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ ’ہم اپنے اختیارات کے تحت کسی بھی شخص کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں اس کے لئے ریڈ زون کے تعین کی بات نہیں۔‘
ترجمان سی ڈی اے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ادارے کے پاس اسلام آباد کے علاقوں کو ریڈ زون میں تبدیل کرنے کا اختیار نہیں کیونکہ شہر کے ماسٹر پلان کے مطابق ریڈ زون کا کوئی وجود نہیں ہے، اسے مستقل زون نہیں کہتے۔‘
تاہم یہ بات دلچسپ ہے کہ سرکاری دستاویزات اور نوٹیفیکیشنز میں ریڈ زون کی اصطلاح بار بار کی گئی ہے۔ رواں سال مئی میں جب تحریک انصاف اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہی تھی تو اس وقت 26 مئی کو وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں ریڈ زون میں فوج کی تعیناتی کا حکمنامہ جاری کیا گیا تھا۔
اسی طرح مارچ 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریڈ زون میں احتجاج کرنے پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔
ریڈ زون کیا ہوتا ہے؟
اسلام آباد میں ’ریڈ زون‘ عام فہم میں اہم سرکاری دفاتر، پارلیمان اور ڈپلومیٹک انکلیو پر مشتمل علاقے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے گیارہ مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے۔
جو اہم عمارتیں اس زون میں آتی ہیں ان میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ، پارلیمان، مختلف وزارتوں کے دفاتر، منسٹرز کالونی، ججز کالونی صوبائی حکومت کے ہاؤس، پی ٹی وی ریڈیو پاکستان، ڈپلومیٹک انکلیو، معروف ہوٹل اور دیگر اہم اداروں کی تنصیبات اور رہائشی کالونیاں بھی شامل ہیں۔
معروف ڈی چوک بھی ریڈ زون میں ہی موجود جہاں تحریک انصاف نے 2014 میں 126 دن کا دھرنا دیا تھا۔
گزشتہ روز ترجمان وزارت داخلہ نے اسلام آباد کا نقشہ جاری کیا تھا جس میں ریڈ زون میں شامل ہونے والے علاقوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ ریڈ زون میں عارضی توسیع کے بعد رقبہ ساڑھے 11 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر ساڑھے 26 کلومیٹر ہو گیا ہے۔
توسیع کے بعد تجارتی مرکز بلیو ایریا، سیکٹر جی سکس اور سیون، ایف سکس اور سیون، ای سیون بھی شامل ہیں جہاں مارکیٹس اور رہائشی علاقے واقع ہیں۔ فیصل ایوینیو، ففتھ ایوینیو، زیرو پوائنٹ اور مارگلہ روڈ کا کچھ حصہ بھی ریڈ زون میں شامل کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکٹر ایف سکس میں پریس کلب بھی واقع ہے جہاں روزانہ کوئی نہ کوئی احتجاج ہو رہا ہوتا ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق ان علاقوں میں جہاں غیر معینہ مدت تک کسی بھی قسم کی ریلی، اجتماع یا جلسے کی اجازت نہیں ہو گی وہیں متعلقہ افراد ان علاقوں میں جا سکیں گے اور انہیں علاقوں میں داخلے کے وقت کوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی۔
27 اکتوبر 2022 کو کی گئی پریس کانفرنس میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کو ان علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں داخل ہونے سے روکا جائے گا۔
لانگ مارچ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر
جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضی نے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے خلاف آج درخواست جمع کروائی ہے جس میں سیاسی جماعت کی جانب سے ریڈ زون میں ماضی میں کیے گئے احتجاج سے متعلق یاد دہانی بھی کروائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’پی ٹی آئی نے 25 مئی 2022 کو سپریم کورٹ کو کروائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی، 2014 میں ریڈ زون میں دھرنا دیتے ہوئے اسے یرغمال بنایا اور قومی نشریاتی ادارے، پارلیمان اور پبلک سیکرٹریٹ پر حملہ کیا۔‘
واضح رہے کہ 25 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے عمران خان توہین عدالت کیس میں ریڈ زون میں جلسے کے شرکاکو داخل نہ ہونے اور سرکاری و نجی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے جانے سے متعلق حکم دیا تھا۔
یاد رہے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے گذشتہ روز کہا تھا کہ ’تاحال لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دی جانے سے متعلق فیصلہ نہیں ہوا‘۔