بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم نامزد

بریگزٹ ڈیل کے کٹر حامی نئے وزیراعظم کو یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں دشواریوں کا سامنا ہوگا۔

توقع ہے کہ جانسن بدھ  کو  ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں اپنے دفتر کا چارج سنبھالنے کے بعد قوم سے مخاطب ہوں گے (اے ایف پی)

برطانیہ کو منگل کے روز بورس جانسن کی صورت میں نیا وزیراعظم مل گیا ہے۔

جانسن اور سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان ایک مہینے تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے بعد حکمران کنزرویٹو پارٹی کے تقریباً دو لاکھ نچلی سطح کے ارکان نے پیر کو ووٹنگ میں حصہ لیا، جس کے بعد آج کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے نئے وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین کا اعلان کیا گیا۔

ان کی نامزدگی سے چند منٹ قبل وزیر تعلیم این ملٹن نے اپنے عہدے سے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ وہ بورس جانسن کی بریگزٹ سے متعلق پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔

برطانیہ میں اقتدار کی یہ منتقلی ایک ایسے وقت میں ہونے جارہی ہے جب تین مہینے بعد 31 اکتوبر کو برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔

ایسی صورتحال میں بریگزٹ ڈیل کے کٹر حامی اور نئے وزیراعظم کو یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں دشواریوں کا سامنا ہوگا۔

یورپ اور امریکہ سے تعلقات کے ذمہ دار جونیئر وزیر خارجہ ایلن ڈنکن مستعفی ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بورس جانسن حکومتی بحران کا سبب بنیں گے۔

دوسری جانب وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ جانسن کے وزیراعظم بننے سے پہلے مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔

لندن کے اخباروں میں قیاس آرائیاں ہیں کہ کم از کم آدھا درجن نچلے درجے کے وزیر بھی آنے والے دنوں میں بریگزیٹ کے معاملے پر اپنے عہدے چھوڑ سکتے ہیں۔

توقع ہے کہ بورس جانسن بدھ کو ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں اپنے دفتر کا چارج سنبھالنے کے بعد قوم سے خطاب کریں گے۔ تاہم ان کے پاس جشن منانے کے لیے وقت نہیں ہوگا کیونکہ حزب اختلاف لیبر پارٹی جمعرات کو کنزرویٹیو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو لیبر پارٹی محض چند ’باغی‘ کنزرویٹو ارکان کی حمایت سے حکومت کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کے نتیجے میں قبل از وقت الیکشن لازمی ہو جائیں گے۔

تاہم جانسن کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں رواں جمعے سے چھ ہفتوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہو جائیں گی اور غالباً لیبر پارٹی اُس وقت تک کے لیے فیصلہ موخر کر دے۔

بورس جانسن کون ہیں؟

برطانوی سیاست دان، صحافی اور مورخ بورس جانسن کا پورا نام  الیگزینڈر بورس ڈی فیفل جانسن ہے۔

جانسن 19 جون 1964 کو نیویارک میں امیر برطانوی والدین کے گھر پیدا ہوئے۔

یورپین سکول آف برسلز، ایش ڈاؤن ہاؤس اور ایٹون کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ’دی ٹائمز‘ میں بطور ٹرینی صحافی اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کیا، مگر ایک جھوٹی خبر دینے پر انہیں برطرف کردیا گیا۔

بعد ازاں وہ برسلز میں ’دی ڈیلی ٹیلی گراف‘ کے نامہ نگار بنے اور بالآخر 1994 میں ’ٹیلی گراف‘ کے نائب مدیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

انہوں نے 1999 میں ’ٹیلی گراف‘ چھوڑنے کے بعد 2005 تک ’دی سپیکٹیٹر‘ کے مدیر کے فرائض سرانجام دیے۔ اس دوران کنزرویٹو پارٹی کے نظریات سے متاثر جانسن نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور 2001 میں پارلیمان کے رکن بنے۔

2008 میں کنزرویٹو پارٹی نے انہیں لندن میئر کے الیکشن میں اپنا امیدوار کھڑا کیا۔ جانسن بھی پارٹی امیدوں پر پورا اترے اور لیبر پارٹی کے لندن میئر کین لیونگ سٹون کو ہرا کر نیا عہدہ سنبھالا۔

بطور لندن میئر انہوں نے شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ میں شراب نوشی پر پابندی عائد کی۔ اس کے علاوہ نئی بسیں اور کرائے کی سائیکلوں کا نظام بھی متعارف کرایا۔

2012 میں ایک مرتبہ پھر شہریوں نے ان کی پرفارمنس پر ووٹ کی صورت میں مہر ثبت کرتے ہوئے دوبارہ شہر کی ذمہ داری سونپی۔

2015 میں انہوں نے پارلیمنٹ کا رخ کیا اور ایم پی بننے کے بعد اگلے سال یعنی 2016 میں میئر کا عہدہ چھوڑ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں جانسن برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا چھوڑنے کے ریفرنڈم (بریگزٹ) میں پیش پیش رہے اور کامیابی سے مہم چلائی۔

ریفرنڈم کے فوری بعد امید کی جا رہی تھی کہ وہ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے الیکشن میں حصہ لیں گے لیکن انہوں نے اس ریس میں دوڑنے سے انکار کر دیا۔

اس ریس کی فاتح ٹریزا مے نے جانسن کو ’سیکریٹری آف سٹیٹ برائے امور خارجہ اور کامن ویلتھ امور‘ مقرر کیا۔ دو سال تک اس عہدے پر فائز رہنے کے دوران بریگزٹ کے معاملے پر ٹریزا مے سے اختلافات نے جنم لیا اور بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔

جانسن برطانوی صحافت اور سیاست کی ایک متنازع شخصیت ہیں۔ روایتی کنزرویٹو ووٹروں کے علاوہ بھی ان کے بہت سے مداح اور حامی ہیں۔

تاہم دائیں اور بائیں بازو کی مشہور شخصیات بورس جانسن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بے ایمان، سست، خوشامد پسند اور نسل پرست کہتی ہیں۔

جانسن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقد ہیں اور حال ہی میں ان کی جانب سے چار ڈیموکریٹ خواتین ارکان کانگریس کے خلاف نسل پرستی پر مبنی ٹوئیٹس کو ’ناقابل قبول‘ قرار دے چکے ہیں۔ تاہم ٹرمپ ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بورس جانسن اور تنازعات:

کئی دہائیوں پر محیط صحافتی اور سیاسی کیریئر کے دوران جانسن کئی تنازعات کا کردار رہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد 1987 میں ’دی ٹائمز‘ کے لیے بطور ٹرینی صحافی ایک سال کام کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ دوئم کے بارے میں ایک مضمون میں ایک جھوٹا بیان شامل کرنے پر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔

اس کے بعد 2004 میں جب وہ رکن پارلیمنٹ تھے تو غیر ازدواجی تعلقات پر جھوٹ پکڑے جانے پر انہیں شیڈو وزیر برائے آرٹ اور کنزرویٹیو پارٹی کے نائب چیئرمین کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔

2016 میں بریگزیٹ ریفرنڈم مہم کے نمایاں چہروں میں شامل جانسن نے ایک متنازع دعوے کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے مطابق ’برطانیہ کو یورپی یونین کو ہفتہ وار 350 ملین پاؤنڈز ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘ ماہرین کے مطابق انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے اعداد و شمار کی حمایت کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ