وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کو خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں نامعلوم افراد کے پولیس پر حملے میں چھ اہلکاروں کی ہلاکت پر اپنے مذمتی پیغام میں دہشت گردی کو ’پاکستان کے اولین مسائل میں سے ایک‘ قرار دے دیا۔
لکی مروت پولیس کے مطابق بدھ کی صبح نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے چوک عباس پر معمول کی گشت پر مامور چھ پولیس اہلکار چل بسے جبکہ واقعے کی ایف آئی آر فی الحال درج نہیں ہوئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں کہا: ’ہماری مسلح افواج اور پولیس نے بہادری سے اس (دہشت گردی) کی لعنت کا مقابلہ کیا ہے۔ لکی مروت میں پولیس وین پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں۔ میری دعائیں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔‘
Let us make no mistake. Terrorism continues to be one of Pakistan's foremost problems. Our armed forces & police have valiently fought the scourge. No words are enough to condemn terrorists' attack on a police van in Lakki Marwat. My thoughts & prayers are with bereaved families.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) November 16, 2022
شہباز شریف نے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت ’شہدا‘ کو اعزازات اور شہدا پیکج دے۔
ایس ایچ او جمشید علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ تھانہ ڈاڈیوالہ کی حدود میں پولیس موبائل گاڑی کے ساتھ پیش آیا۔
’تمام اہلکار موبائل گاڑی میں سوار تھے، جن کا تعلق صوبے کے مختلف اضلاع سے ہے۔‘
انہوں نےکہا کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آور کون تھے، البتہ وہ اتنا بتاسکتے ہیں کہ لکی مروت میں بھی دہشت گردی زور پکڑ رہی ہے۔
لکی مروت کے مقامی صحافی غلام اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ خبر میڈیا تک کافی تاخیر سے پہنچی کیونکہ جائے وقوعہ کا علاقہ اس ضلعے کا ایک دور افتادہ مقام ہے۔
’مقامی میڈیا تک یہ خبر نو بجے کے بعد پہنچی۔ یہ علاقہ میانوانی کی سرحد کے ساتھ لگا ہوا ہے، جو کہ ایک غیر گنجان آباد (ویرانہ) علاقہ ہے۔ اور ہسپتال سے کافی دور ہے۔ 10 بجے تک شہدا کو ہسپتال بھی منتقل نہیں کیا گیا تھا۔‘
غلام اکبر کے مطابق ضلع لکی مروت میں تین ہسپتال ہیں اور پولیس مقامی صحافیوں کو معلومات دینے سے گریز کررہی ہے کہ آیا کون سے ہسپتال میں لاشوں کو منتقل کیا جائے گا۔
مقامی ذرائع کے مطابق نامعلوم مسلح افراد پولیس اہلکاروں کی سرکاری کلاشنکوفیں بھی ساتھ لےگئے ہیں، تاہم پولیس نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا تاہم پچھلے واقعات میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر نامعلوم افراد سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
پولیس ترجمان شاہد حمید نے چھ پولیس اہلکاروں کے جانے سے گزرنے کی تصدیق کی، جن میں انچارج علم دین، ڈرائیور دل جان، ڈی ایف سی احمد نواز، ہیڈ کانسٹیبل زبیر، ایف آر پی سپاہی علی عثمان اور کانسٹیبل محمود خان شامل ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق علاقے ’شہاب خیل‘ میں ہفتہ وار بدھ بازار لگتا ہے اور پولیس اسی میلے میں سکیورٹی کے لیے جارہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ واقعے کے بعد علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی ہے اور سرچ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہارکیا اور چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کی۔
اس واقعے کی تاحال کسی دہشت گرد تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم پولیس اس کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دے رہی ہے۔
(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین)