کوپ 27 کا غریب ملکوں کے لیے فنڈ کا اعلان، پاکستان کا خیر مقدم

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی پر کانفرنس کے لیے محنت کرنے پر ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

26 اگست 2022 کی اس تصویر میں بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب سے متاثر ہونے والا ایک شخص متاثرہ علاقے سے بچوں کو محفوظ مقام کی جانب لے جاتے ہوئے(فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان نے مصر میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی کوپ 27 سربراہی کانفرنس کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا جس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات کا شکار ہونے والے غریب ملکوں کی مدد کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نےاتوار کو اپنی ٹویٹ میں کوپ 27 میں ہونے والی پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’موسمیاتی انصاف کے ہدف کی جانب پہلا اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ عبوری کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخی پیش رفت پر کام کرے۔‘

 وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلی پر کانفرنس کے حوالے سے محنت کرنے پر ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان اور ان کی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا۔

ادھر اپنی ٹویٹ میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ’134 ملکوں کے نقصان ازالے کے مطالبے سے فنڈ کے قیام تک 30 سال کا طویل سفر کیا گیا۔‘

’ہم آج کے اعلان اور اس مشترکہ علامیے کا خیر مقدم کرتے ہیں جو کئی راتوں کی محنت سے تیار کیا گیا۔ یہ موسمیاتی انصاف کے اصولوں کی توثیق کی جانب اہم قدم ہے۔‘

شیری رحمان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب جب کہ فنڈ قائم ہو چکا ہے تو پاکستان اس کے فعال ہونے کا منتظر ہے تا کہ فنڈ ایک مضبوط ادارہ بن سکے جو کمزور اور موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کی ضروریات جلد پورا کرنے کے قابل ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی کانفرنس کا اعلان دنیا بھر میں ان کمزور برادریوں کے لیے ایک امید ہے جو موسمیاتی دباؤ میں بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر اکثر کشیدگی کا شکار رہنے والی سربراہ کانفرنس اتوار کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے نمٹنے کے جامع اتفاق رائے اور اس ’تاریخی‘ معاہدے کے ساتھ ختم ہو گئی ہے کہ کمزور ملکوں کو پہنچنے والا نقصان پورا کرنے کے لیے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ پر ہونے والی سربراہ کانفرنس دو ہفتے جاری رہی۔ بعض موقعوں  پر کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دی تاہم بعد میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی جس کے تحت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے والے نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا۔

بعض ملکوں نے ماحول کے لیے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی کی خواہشات کو آگے بڑھانے کے عزم پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجاویز پر میراتھون کانفرنس کئی روز تک جاری رہی۔ اتوار کو جب سورج بلند ہوا تو کانفرنس کے مندوبین نے مجوزہ فنڈ کے قیام کی منظوری کو سراہا۔

زیمبیا کے وزیر سبز معیشت اور ماحولیات کولنز نزوو نے کہا کہ وہ ’بہت، بہت خوش ہیں۔‘ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ ایک ارب 30 کروڑ افریقیوں کی طرف سے بہت مثبت نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کا سبب ہے۔ مصر میں ہونے والی کامیابی کی بنیاد اس فائدے پر ہو گی جو ہمیں خسارے اور نقصان کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔‘

کوپ 27 کے اختتام پر جاری علامیے میں گرم ہوتی زمین کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے وسیع دائرے میں دنیا کی کوششوں کا احاطہ کیا گیا۔ یہ کوششیں عالمی درجہ حرارت کو صنعتی ترقی سے پہلے کے دور کے 1.5 درجے سیلسیئس تک محدود رکھنے کے مقصد کے مطابق کی جائیں گی۔

پہلی بار قابل تجدید توانائی کو بھی علامیے کا حصہ بنایا گیا ہے جب کہ کوئلے سے بجلی کی بے لگام پیداوار اور غیر فعال فوسل ایندھن پر سبسڈی کے مرحلہ وار خاتمے کی کوششیں تیز کرنے کے مطالبات دہرائے گئے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اتوار کو کہا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی کوپ 27 کانفرنس عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے ضروری کاربن کے اخراج میں ’نمایاں‘ کمی پر زور دینے میں ناکام رہی ہے۔‘

گوتریس کا کہنا تھا کہ ’ہمارا سیارہ ابھی تک ایمرجنسی روم میں ہے۔ اب ہمیں گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی لانے کی ضرورت ہے اور یہ وہ مسئلہ جسے کانفرنس میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔‘

دوسری جانب یورپی یونین نے بھی اتوار کو کہا ہے کہ اسے کوپ 27 سمٹ میں طے پانے والے معاہدے میں گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی خواہش نہ ہونے پر ’مایوسی ہوئی ہے۔‘

یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹمرمنس کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ لوگوں اور زمین کے معاملے میں ناکافی پیش رفت ہے۔ اس میں گیسوں کے اخراج کا سبب بڑے ملکوں کی طرف سے مزید کوششیں شامل نہیں ہیں کہ وہ گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اقدامات میں تیزی لائیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات