افغانستان میں تقریباً 80 فیصد ٹی وی اور ریڈیو چینلز اشتہارات کی کمی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔
گذشتہ سال کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ہر میدان میں اس کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے جس میں میڈیا سرفہرست ہے۔
روایتی میڈیا کی جانب اشتہارات اور وسائل سست رفتار ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا افغانستان میں اس کی جگہ لیتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایک طرف درجنوں میڈیا کارکن ملک سے باہر چلے گئے تو دوسری طرف کمرشل اشتہارات کی قلت کی وجہ سے میڈیا کی آمدنی میں شدید کمی آ گئی ہے۔ اس وجہ سے زیادہ ترمیڈیا آؤٹ لیٹس بند ہو گئے اور بچے کھچے چینل مالکان نے عملہ کم کرنے کے ساتھ تنخواہوں میں بھی 50 فیصد کمی کر دی ہے۔
ایک ٹی وی چینل کے مارکٹینگ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہماری جانب سے اشتہارات کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ رعایت کے باوجود تاجرحضرات ٹی وی اور ریڈیو پر اپنا اشتہار نہیں چلانا چاہتے، کاروبار شدید مندا ہے۔‘
افغانستان کی ایک پرنٹنگ پریس میں کام کرنے والے حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ پندرہ سے سات ہزار ہو چکی ہے۔
رضوان اللہ امیری ڈیلائیٹ سایئن ایڈورٹائزنگ کمپنی کے بزنس ڈویلپمنٹ ہیڈ ہیں۔ بیس سال سے ان کی کمپنی اشتہارات کا کام کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری ٹیم 150 سے گھٹ کر سو افراد تک آ چکی ہے اور تنخواہیں بھی کسی حد تک کم کی گئی ہیں۔ حالات اب ویسے نہیں ہیں، ڈونراور این جی اوز جا چکے ہیں۔‘
’پورے افغانستان میں ہمارے لگ بھگ دو ہزار بِل بورڈ تھے جن میں زیادہ تر اب خالی پڑے ہیں۔ کابل میں ہمارے 400 سے زیادہ بل بورڈز میں سے تقریباً 40 فیصد خالی ہیں۔
حکومتی اشتہارات میں کمی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ حکومت خود اشتہارات نہیں دیتی تھی بلکہ وہ ڈونرز کی وساطت سے بنتے اور نشر ہوتے تھے، اس حکومت کے پاس کوئی ڈونر نہیں۔ ان کا بجٹ مختص ہے لیکن خاص اعلانات کے لیے۔‘
ہم نےدیکھا کہ ’یوم آزادی پر اسلامی امارات نے کتنا خرچہ کیا، بہت زیادہ بینرز تھے، بل بورڈز تھے، جھنڈے وغیرہ تھے۔‘
جب سوال کیا گیا کہ اس کمی کی ایک وجہ عورتوں پر پابندی ہو سکتی ہے تو رضوان اللہ صاحب نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
کابل کی پرنٹنگ پریس یونین کے سربراہ عبدالرافع صدیقی کے مطابق ’تبدیلیوں کا آغاز کرونا سے ہوا تھا جس کی وجہ سے بہت سی این جی اوز افغانستان چھوڑ گئیں۔ تعلیمی اور مدد رساں ادارے بند ہوگئے تو فقر کا یہ سلسلہ اس وقت سےشروع ہوا ہے۔‘
’گذشتہ جمہوری نظام ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ نجی ادارے جو پورے افغانستان میں صحت، تعلیم وغیرہ کے پروجیکٹس کرتے تھے، چلے گئے۔ وہ عوامی آگہی کے لیے اشتہاری مہم چلایا کرتے تھے۔ اب 900 پرنٹنگ کمپنیوں اور400 سے زیادہ کاغذ کے بیوپاریوں میں سے آدھے سے زیادہ نے کام بند کر دیا ہے اور صرف ہمارے کچھ افغانی تاجروں کی پرنٹنگ کےعلاوہ کوئی بڑا کام نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ کسی بھی ملک نے افغانستان کی نئی انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہےکہ ہمارے سارے بینک مفلوج ہیں جس کی وجہ سےتاجر حضرات خام مال خریدنے کے لیے پیسہ کہیں بھی نہیں بھیج سکتے اور صرافوں کے ذریعے پیسہ بھیجنے پر زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اس لیے بازاروں، کاروباروں اورعام لوگوں کی معیشت میں بڑی تفاوت آگئی ہے۔ ہمارے لوگ شدید غربت کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور دن بہ دن یہ حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں اشتہار بہت کم ہو گئے ہیں۔‘
عبدالرافع نے کہا کہ ’حکومت سے بھی گلہ کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ صرف ایک سال ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ سارے کام بہتر ہو جائیں کیونکہ اب ہرجگہ امن ہے، جس سے لوگ خوش ہیں البتہ معیشت کے لحاظ سےلوگ بہت مایوس ہو چکے ہیں۔
کابل میونسپل کمیٹی کے ترجمان نعمت اللہ بارکزے نے کہا ہے کہ ’اشتہارات میں کمی آ گئی ہے تو اس کا تعلق تجارتی کمپنیوں اور وزارت صنعت و تجارت کے ساتھ ہے۔ بل بورڈز کا تعلق ہمارے ساتھ ہے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں، کیونکہ کمپنیاں ہمیں ٹیکس دیتی ہیں، اگر ٹیکس نہ دیں تو ہم پہلے وارننگ دیتے ہیں اوراگر پھر مسئلہ حل نہ ہو تو ہمارا قانونی حق بنتا ہے کہ ہم ان بل بورڈز کو ہٹائیں لیکن ابھی اس حد تک بات نہیں پہنچی ہے۔‘
’حکومت کے اشتہار کم ہوئے ہیں تو اس کا جواب ذبیح اللہ مجاہد صاحب دے سکتے ہیں اور نشریاتی پالیسی کے لحاظ سے بھی اس کا تعلق وزارت اطلاعات وکلچر کے ساتھ ہے۔ ہم اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’یہ بات جو لوگ سوچتے ہیں کہ اعلانات میں کمی کی ایک وجہ عورتوں پر پابندیوں کا بڑھنا ہے تو یہ امربالمعروف وزارت کا کام ہے۔ ہمیں بھی ان کی طرف سے ایک خط آ گیا تھا جس میں حجاب کی پابندی نہ کرنے والی عورتوں کی تصویروں کو بل بورڈوں سے ہٹانے کا حکم تھا۔ لیکن ہم کسی کی ذمہ داری میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ اسلامی امارت کی عام پالیسی کی پابندی کرنا سب پر لاگو ہے۔‘