کوئٹہ: قومی باکسنگ چیمپیئن شپ میں ’پرعزم‘ خواتین کی شرکت

سرگودھا سے تعلق رکھنے والی فاطمہ زہرا نے بتایا کہ ان کے اس کھیل کی طرف آنے سے علاقے میں مزید لڑکیوں نے بھی باکسنگ شروع کی ہے۔

پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والی خواتین باکسر کے خیال میں کوئٹہ میں قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد خوش آئند ہے اور اس کھیل کو اس سے فروغ ملے گا (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

کوئٹہ میں اب کی بار ملک بھر کے لڑکے، لڑکیوں کے باکسنگ مقابلوں کا میلہ سجا جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیا۔

مرد و خواتین کی تیسری قومی باکسنگ چیمپین شپ میں ملک بھر سے 14 ٹیموں نے حصہ لیا، جن میں آرمی، نیوی، ائیر فورس، واپڈا، ریلوے، پولیس، ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان کے علاوہ گلگت بلتستان، اسلام آباد اور جموں و کشمیر کی ٹیمیں شامل تھیں۔

پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والی خواتین باکسر کے خیال میں کوئٹہ میں قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد خوش آئند ہے اور اس کھیل کو اس سے فروغ ملے گا۔

پاکستان ایئر فورس کی جانب سے پنجاب کے علاقے سرگودھا سے تعلق رکھنے والی فاطمہ زہرا نے بتایا کہ ان کے اس کھیل کی طرف آنے سے علاقے میں مزید لڑکیوں نے بھی باکسنگ شروع کی ہے۔

فاطمہ زہرا کہتی ہیں کہ ان کے علاقے میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی اس کھیل سے رغبت نہیں رکھتے۔ انہوں نے بھی یہ کھیل شوقیہ طور پر شروع کیا لیکن جب انہیں پذیرائی ملی تو انہوں نے باقاعدہ اس کھیل کو کھیلنے کا فیصلہ کیا۔

’باکسنگ صرف لڑکوں کا کھیل نہیں بلکہ لڑکیاں بھی کھیل سکتی ہیں۔ پاکستان میں یہ کھیل آگے جا رہا ہے۔ بیرون دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لڑکیاں آگے جارہی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی لڑکیاں پیچھے رہیں۔‘

فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے گھروں سے نکلی ہیں تاکہ پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔ ابھی میں پاکستان بھر میں کھیل چکی ہوں۔ میرے پاس دو مرتبہ قومی چیمپیئن ہونے کا اعزاز بھی ہے۔ اس کے علاوہ میں آج تک کوئی میچ ہاری نہیں ہوں۔‘

کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں باکسنگ رنگ بنایا گیا ہے، جہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے مقابلے ہوئے جس میں شائقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فاطمہ زہرا کی طرف کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والی گل جبین ملنگ بلوچ بھی ان مقابلوں کے لیے بہت پرجوش تھیں۔

گل جبین نے بتایا کہ انہیں باکسنگ کا شوق گھر سے ہوا۔ کیوںکہ ان کے والد ملنگ بلوچ اولمپیئن باکسر رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مجھے بہت اچھا لگتا تھا جب میں ان کو تربیت حاصل کر کے اور کھیلتے ہوئے دیکھتی تھی۔ جب میں نے والد کو کہا کہ میں بھی باکسنگ کرنا چاہتی ہوں تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ جاؤ بیٹی جو تمہاری مرضی۔‘

گل جبین کہتی ہیں کہ بظاہر باکسنگ سخت کھیل ہے اور جب عام لوگ اور لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو پنچ مار رہی ہیں۔ تو انہیں لگتا ہے کہ وہ اس طرح نہیں کر سکتے۔‘

’لیکن میں لڑکیوں سے کہتی ہوں کہ اگر وہ آگے آئیں گی تو کچھ محسوس نہیں ہوگا۔ کیوں کہ آپ اگر پنچ کھاؤ گے تو جواب میں آپ بھی پنچ مارو گے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔‘

گل جبین کہتی ہیں کہ ’اگر ہمیں کسی عالمی مقابلے کی تیاری کرنی ہو تو اس کے لیے تربیت اور مزید سہولیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاکہ ہمیں یہ علم ہو کہ کس طرح کی تربیت ضروری ہے۔‘

کوئٹہ میں ہونے والے ان مقابلوں کے منتظمین نے بھی انہیں کوئٹہ اور بلوچستان کی سطح پر باکسنگ کے فروغ اور نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کے لیے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

کوئٹہ سے وسیم سمیت بہت سے باکسر عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرچکے ہیں۔ جنہوں نے مشکل حالات اور سہولیات کی کمی کے باوجود اپنے کھیل کو جاری رکھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل