کراچی کے بنگلہ بازار جہاں ’نایاب چیزیں‘ ملتی ہیں

کراچی میں اس وقت تین بڑے اور مشہور بنگلہ بازار ہیں جو کراچی میں مقیم بنگلہ اور بہاری آبادی کی پہچان ہیں۔

بنگلہ بازار میں ہر طرح کی سبزی، پھل اور مصالحہ جات دستیاب ہوتے ہیں (شیما صدیقی)

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ایک ایسا منفرد شہر ہے، جہاں ہر قومیت اور نسل کے لوگ بستے ہیں، اسی لیے اسے ’منی پاکستان‘ بھی کہا جاتا ہے۔

آپ کراچی کے کسی بھی کونے میں نکل جائیں، کہیں زبان کی چاشنی ملے گی تو کہیں ذائقہ اور کہیں خوشبو دار روایتی کھانے راستہ روک لیتے ہیں۔

جہاں کراچی کے اتنے رنگ ہیں، وہیں بنگلہ بازار بھی کراچی کا ایک اور انوکھا رنگ ہے۔

یہاں زیادہ تر ساؤتھ انڈین لوگ کاروبار کرتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا تعلق انڈیا کے جنوبی حصوں سے ہے جیسے حیدرآباد، مالابار، تمل، بنگلور، مدراس، چنائے اور کلکتہ۔

کراچی میں اس وقت تین بڑے اور مشہور بنگلہ بازار ہیں جو یہاں مقیم بنگلہ اور بہاری آبادی کی پہچان ہیں۔

ذکر تو ہم نے کئی بنگلہ بازروں کا سنا ہے لیکن ہمیں موسیٰ کالونی میں قائم بنگلہ بازار جانے کا موقع ملا، جہاں بنگلہ موسیقی سے لے کر لنگی اور ڈھاکہ کی چھاپا ساڑھی بھی دستیاب ہے۔ بنگالی مصالحے خاص کر مچھلی مصالحے کی تو کیا ہی بات ہے، جس کے حوالے سے دکان دار کا دعویٰ تھا کہ ’اگر ہمارا مصالحہ اچھا نہ لگے تو پیسے واپس۔‘

یہاں طرح طرح کے پھل اور سبزیاں ملیں گی، خاص کر کٹھل، آملہ اور لال املی جو میٹھی چٹنی بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔  

اسی طرح سٹار پھل، بھیل، زیتون کی چٹنی، ہرا تازہ آملہ، بنگال کی کھجور کے گڑ سمیت بڑے بڑے سوکھے تمباکو کے پتوں اورآدھے فٹ کی اروی دیکھ کر آپ رکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔  

یہاں کی مچھلی مارکیٹ میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی مچھلیاں، جھینگے اور کیکٹرے ہی نہیں ملتے بلکہ مچھلی فروش آپ کے شوق کو دیکھ کر ’آکٹوپس‘ بھی سامنے لے آتے ہیں۔

بازار کے اس حصے میں  پہنچ کر صحیح معنوں میں مچھلی بازار کا محاورہ سمجھ آتا ہے کیونکہ یہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

کراچی کی ریحانہ عرف مومو کے خاندان کا تعلق کلکتہ سے ہے۔ مومو بتاتی ہیں کہ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ان کا خاندان ڈھاکہ میں رہا اور 1971 کے بعد کراچی منتقل ہو گیا۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ موسٰی کالونی کا بنگلہ بازار کم و پیش 60 سال پرانا ضرور ہو گا۔

کھانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم موری یعنی مرمرے بناتے ہیں، جن سے ہم ’جھل موری‘ بناتے ہیں جو ایک طرح کی چاٹ ہوتی ہے جس میں مرمروں اور چنا چور کو سرسوں کے تیل میں ہلکا ہلکا بھون کر پیاز اور مرچیں ڈال کر تیار کیا جاتا ہے۔‘

مومو نے مزید بتایا: ’چھوٹے جھینگے، کٹ بھیل اور انناس یہاں کی خاص پہچان ہیں۔ ان میں کچھ چیزیں عام بازار میں بھی مل جاتی ہیں لیکن بنگلہ بازار والی تازگی کہیں اور نہیں۔ چھوٹا لال یا بھورا چاول، کھٹل اور کچے کیلے بھی ہمارے کھانوں کو روایتی بنگلہ ذائقہ اور انداز دیتے ہیں۔‘

انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’یہ بات ہمارے دادا کہتے تھے کہ سبزیاں صرف سرسوں کے تیل میں پکاؤ، وہ بھی بنگلہ بازار کے تیل میں۔

لباس کی بات کریں تو یہاں بنگلہ دیش سے آئی ہوئی لنگی بھی ملتی ہے جو مردوں کے لیے ایک آرام دہ لباس سمجھا جاتا ہے۔ کڑھے ہوئے مخصوص کرتے بھی مل جاتے ہیں اور سوتی بنگلہ ساڑھی بھی۔

مومو نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’یہ بازار ہمیں ڈھاکہ، کلکتہ اور چٹاگانک لے جاتے ہیں۔ میرا ننھیال اس وقت ڈھاکہ میں ہے۔ میں چند بار ہی وہاں گئی ہوں لیکن اپنے ماں باپ اور اب ساس سے یہ ہی سنتی آئی ہوں کہ ہم بنگلہ بازار اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں  کا ماحول ہمیں اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ ہم زبان مل جاتے ہیں۔ چیزوں کے ڈبوں پر بنگلہ زبان پڑھنے کے لیے مل جاتی ہے، یعنی کچھ دیر ہم اپنے ماضی سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ وہاں چیزیں سستی ہیں۔‘

تاہم بنگلہ بازار میں آئی ہوئی گاہک ثمینہ کہتی ہیں کہہ یہاں ملنے والا سامان بھی اب مہنگا ہوتا جارہا ہے۔

’اب چونکہ بنگلہ دیش کا ٹکا ہمارے روپے سے بہتر مالیت کا ہے، لہذا پاکستانی روپے میں وہی چیز کافی مہنگی پڑتی ہے۔‘

اس بات کی تائید دکان دار ابو طاہر بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’ہمیں سامان براہ راست نہیں بلکہ سری لنکا یا پھر دبئی کے راستے منگوانا پڑتا ہے، جس سے چیزوں کی قیمت اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے، تب ہی چیزیں باآسانی آ سکیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے ابو طاہر پچھلے چار سال سے  بنگلہ بازار میں دکان چلا رہے ہیں۔ وہ کراچی میں مقیم اپنے خاندان کی چوتھی نسل سے ہیں۔ ان کے پاس بنگال کا ہر سامان مل جاتا ہے اور ساوتھ انڈین شہروں کا بھی۔ وہ یہ سب سامان کھپیوں کی مدد سے منگاتے ہیں بلکہ اگر کوئی آرڈر کرئے تو بھی وہ سامان منگوا کر دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ سردی شروع ہوتے ہی لال گڑ لینے یہاں آتے ہیں۔ پاکستان میں گنے یا چقندر کا گڑ تیار کیا جاتا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں کجھور سے گڑ کا شیرہ تیار کرتے ہیں۔

’یہ دو سے ڈھائی ہزار کلو کے حساب سے بکتا ہے کیونکہ ہر کلو پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی ہوتی ہے، اس سے بھی چیزوں کی قیمت بڑھتی ہے۔‘

محمد صدیق نامی ایک گاہک نے بتایا کہ اس بازار میں نایاب چیزیں ملتی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صدیق نے مزید بتایا کہ ان کے بڑے جب یہاں کی بنگلہ دیشی چیزیں کھاتے ہیں تو ان کی پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

مختصر یہ کہ بس ایک دفعہ آپ اس بازار کا حصہ بن جائیں، آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ کراچی کا یہ رنگ تو آپ نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں۔

اس بازار کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں آپ کو بنگالی ذائقے ہی نہیں، بنگالی لہجے بھی متاثر کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا