اپنی شناخت کے بحران میں مبتلا کراچی میں بسنے والے بنگالی

کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے بنگالی شناخت کے بحران میں مبتلا ہیں۔ ابھی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ یہ کون ہیں، پاکستانی، بنگلہ دیشی یا برمی۔

کراچی کے مارکیٹ میں بنگالی تارکین وطن (اےایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد کراچی میں تین لاکھ بنگالی آباد تھے۔ وقت بدلا اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ تعداد گھٹتی اور پھر بڑھتی رہی۔ اب ایک اندازے کے مطابق، کراچی کی 105مختلف کالونیوں میں تقریباً دو لاکھ تک بنگالی رہائش پذیر ہیں۔

ان میں سب سے مشہور بنگالی آبادیاں اورنگی ٹاؤن، ابراہیم حیدری، بلال کالونی (مچھر کالونی) ضیاالحق کالونی، موسیٰ کالونی اور لیاری کا بنگالی پاڑہ ہیں۔

مچھر کالونی اور شناخت کے منتظر بنگالی آبادی

مچھر کالونی کراچی کی قدیم اور اب سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ نہیں معلوم کہ ’مچھر کالونی‘ کا نام مچھروں کی بہتات سے پڑا، یا یہ مچھیرے کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ 30 کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل کالونی میں 60 فیصد سے زیادہ حصے پر بنگالی اور برمی آباد ہیں۔ کالونی میں آپ کا استقبال گندے پانی کی بو اور تعفن سے ہوتا ہے۔

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2017 کی مردم شماری کے مطابق یہاں سوا لاکھ کے قریب افراد رہتے ہیں۔ ساحلی پٹی سے جڑے ہونے کی وجہ سے آبادی کا زیادہ تر روزگار، ماہی گیری، کشتی بانی، مچھلی اور جھینگے کی صفائی سے جڑا ہوا ہے۔ جس کی باس ہی یہاں کی خصوصیت ہے۔

یہاں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کا فقدان، روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ کالونی کے داخلی دروازے کے ساتھ ماہی گیری کی صنعت سے جڑے کارخانے، کیچڑ، گندگی کے پہاڑ اور گندے پانی کے جوہڑ عام ہیں۔ یہاں آپ کو غربت، بیروزگاری اور نوجوانوں کے بے رونق اور بے یقین چہرے نظر آتے ہیں۔ بے لباس چھوٹے بچے گلی میں مٹی سے کھیل کر اپنا حال گزار رہے ہیں۔ بڑوں کا ماضی بھی کم و پیش ایسا ہی گزارا تھا۔ اور مستقبل کی کسے فکر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور بنیادی صحت کے حصول کے لیے ہر حوصلہ مند گھرانے کو کالونی سے باہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ دواخانے یا ڈاکٹر تک رسائی آبادی کے بہت ہی کم حصے کو حاصل ہے۔ ایک نجی ادارے ’امکان‘ نے دو سال پہلے خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی بنیادی سہولت پہچانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

اس کالونی کا المیہ یہ ہے کہ یہاں بنیادی ضرورتوں سے بھی بڑا ’شناخت‘ کا مسئلہ ہے۔ یہاں کی اکثریت ’بے زمین اور بے وطن‘ تسلیم کی جاتی ہے۔ ابھی یہ مسئلہ حل ہونا باقی ہے کہ یہ ہیں کون، پاکستانی، بنگالی یا برمی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیمپئن بنے کا خواب دیکھنے والی کرن کی کہانی

مچھر کالونی میں ایک ادارہ ’امکان ویلفیئر آرگنائزیشن‘ محلے کے بچوں کو غیر رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں جمناسٹک بھی سکھا رہا ہے۔ ان مقامی بچوں میں بنگالی، برمی اور پشتون گھرانوں کے بچے آ رہے ہیں۔ ان ہی بچوں میں سے ایک کرن ہیں۔

کرن کی کہانی ایک ایسے ہی بنگالی خاندان کی کہانی ہے، جسے شناخت چاہیے۔ اسے کاغذات میں ثابت کرنا ہے کہ ان کا خاندان سچا اور پکا پاکستانی خاندان ہے۔ مچھر کالونی کی 13 سالہ کرن، آٹھ بہن بھائیوں کی سب سے چھوٹی بہن ہیں۔

 کرن جمناسٹک کی کھلاڑی ہیں اور پچھلے تین سالوں سے اس کھیل میں مہارت حاصل کر رہی ہیں۔ کرن بتاتی ہیں: ’میں جمناسٹک کھیلتی ہوں اور ’امکان کھیل‘ میں بھی پڑھتی ہوں۔ میں تیسری جماعت کی کتابیں (غیر رسمی طور پر) پڑھ رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے ماں باپ کا نام روشن کروں۔ پڑھوں بھی اور کھیلوں بھی، اور پاکستان کی نیشنل چیمپئن بنوں۔

’چند ماہ پہلے ایک انٹر سکول ایونٹ میں ’بیسٹ گرلز جمناسٹ‘ کا ایوارڈ بھی لے کر آئی ہوں اور ان مقابلوں میں ہماری ٹیم پچھلے تین سال سے پہلی پوزیشن لے کر آ رہی ہے۔ میں آگے سکول میں پڑھنا چاہتی ہوں اور بڑے ہو کر اپنے استاد سر عدیل کی طرح کوچ بننا چاہتی ہوں۔ لیکن میرے والدین کے پاس کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے سکول میں داخل نہیں کیا جا رہا۔

’ہماری ٹیم میں سات لڑکیاں ہیں۔ ان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ ان کے والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بھی سکول نہیں جا سکیں۔ ہماری ٹیم میں سب سے اچھا انوارہ کھیلتی ہے۔ مجھ سے پہلے انوارہ ہی دو سال بیسٹ جمناسٹ گرل رہی۔ اس سال یہ ایوارڈ مجھے ملا ہے۔ باقی سونیا، کلثوم، اقصی بھی ہماری ٹیم کی اچھی جمناسٹ ہیں۔‘

کرن کے جمناسٹ انسٹرکٹر عدیل کا تعلق لیاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کرن میں پوٹینشل ہے۔ وہ اچھا کھیل سکتی ہے اور پاکستان کی نمائندگی کر سکتی ہے۔ کسی بچے میں شوق اور محنت کی عادت ہو تو چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اور کرن اور دیگر بچوں میں یہ عنصر موجود ہے۔ وہ آگے جائیں ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی۔‘

کرن کی والدہ خواب کی تعبیر چاہتی ہیں

دوسری طرف کر ن کی والدہ خالدہ کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس شناختی کارڈ نہیں۔ پہلے میرے شوہر کا تھا، لیکن گم ہو گیا۔ اور نادرا دوسرا کارڈ نہیں بنا رہا۔ میں نے شناختی کارڈ کا فارم جمع بھی کرایا۔ لیکن شناختی کارڈ ملا نہیں۔ میرے شوہر ’امکان کیئر سینٹر‘ میں چوکیدار ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ مجھے اور میرے خاندان کو شناختی کارڈ ملے۔ میری چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹے کرن کی طرح امکان کھیل سکول جاتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میری کوئی بیٹی نہیں پڑھ سکی، لیکن کرن ضرور پڑھے اور اپنا کھیل بھی جاری رکھے۔ کرن گھر کی پہلی لڑکی ہے، جو کھیل اور پڑھ رہی ہے۔‘

13 سالہ کرن اب بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہو گئی ہے۔ خالدہ نے مزید بتایا کہ پچھلے سال سے ہماری لڑکی کے لیے محلے میں باتیں ہوئیں کہ ’اب کرن بچی نہیں جو یہ جمناسٹک کھیلے۔‘

’خود کرن نے ایک دن روتے ہوئے بتایا کہ اب وہ سکول نہیں جائے گی کیوں کہ محلے میں لوگ باتیں بناتے ہیں۔ مجھے بھی تشویش ہوئی۔ لیکن ہم نے اور ہمارے میاں نے اپنی بچی کا ساتھ دیا۔ ہم نے کہا کہ نہیں تم سکول بھی جاؤ گی اور کھیل بھی سیکھو گی۔ اب یہ لڑکی ہے تو کیا ہوا۔ لڑکا ہوتی تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ پڑھے اور کھیلے۔ اور اپنے ارمان پورے کرے۔

’میں پہلے گھر میں لڑکیوں کے ساتھ مل کر جھینگے کی صفائی کا کام کرتی تھی۔ بچے چھوٹے تھے۔ کچھ پیسے آ جاتے تھے۔ کرائے کا گھر ہے۔ لیکن اب بیٹیاں منع کرتی ہیں۔ کرن سے بڑی دو بیٹیوں کی کم عمری میں شادی کر دی تھی۔ لیکن چند سالوں میں ایک بیوہ ہو گئی اور ایک کو طلاق، کیونکہ لڑکا نشئی تھا۔ ان بچیوں کی بھی ابھی زندگی پڑی ہے۔ کبھی سوچتی ہوں کہ شاید قسمت ہی خراب ہے۔ بولتے ہوئے بھی برا لگتا ہے لیکن کیا کریں۔ میری بچیاں اب فشریز کی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ ان کے بھی بچے ہیں۔ وہ کہاں جائیں۔ میں تو 25 سال پہلے شادی ہو کر یہاں آئی تھی۔ ماموں تھے یہاں۔ بس ہوائی جہاز میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ لیکن اب میرا تو نہ کوئی میکہ اور نہ کوئی سسرال۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ کرن پڑھے۔ کچھ محنت کر کے کما لے۔ اپنا شوق پورا کرے۔ اگر میری بڑی پانچ بچیاں بھی پڑھی ہوئی ہوتیں، تو وہ بھی کچھ کر اپنا گزارا کر لیتیں۔ پڑھ کر ٹیچر بن جاتیں۔ اب افسوس ہوتا ہے۔ لیکن ہم کیا کریں۔‘

امکان کی پروجیکٹ ہیڈ طاہرہ حسن کہتی ہیں کہ ’ہماری اس غیر رسمی تعلیم سے نکل کر کئی بچوں نےTCF سکول کا ٹیسٹ پاس کیا اور وہاں داخل ہوئے۔ کئی بچے سرکاری سکولوں میں داخل کیے گئے ہیں۔ یعنی ہماری کوششیں کسی حد تک بار آور ثابت ہوئیں ہیں۔ لیکن جن بچوں کے پاس کاغذات نہیں ان کو داخلہ نہیں دیا جا رہا۔

ہماری جماسٹک کی ٹیم بھی انٹر سکول سطح پر بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔ یہ بچے اچھا کھیل کر اور آگے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اگلی سطح پر نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ ان کے پاس کاغذات نہیں۔ اگر یہ چیزیں بروقت حل نہ کی جا سکیں تو ہماری اور ان بچوں کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ اگر ان بچوں کو مواقع نہ دیے گئے، تو ان بچوں میں غصہ بڑھے گا۔

پاکستانی قانون کیا کہتا ہے؟

پاکستانی کا شہریت کا قانون 1951  کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو پاکستانی سرحدی حدود میں رہتا ہے وہ پاکستانی تسلیم کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ہر وہ بچہ جو پاکستان کی زمین پر پیدا ہوا، وہ پاکستانی ہونے کا حق دار ہے۔ لیکن نادرا کی ویب سائٹ پر شناختی کارڈ کے حوالے سے گائیڈ لائن کے مطابق، ’اگر درخواست گزار کی پیدائش، 16 دسمبر 1971 سے پہلے کی ہے اور جائے پیدائش بنگلہ دیش ہونے کے ساتھ والدین کے شناختی کارڈ موجود نہ ہوں تو اسےUV  پالیسی سے گزارا جائے گا۔

بچے کی پیدائش کے حق کا قانون موجود ہے مگر عمل درآمد نہیں

طاہرہ حسن امکان کیئر کی سربراہ ہونے کے ساتھ وکیل بھی ہیں۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ قانون پاکستان میں دفعات موجود ہیں، جن پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ ہمارے ملک کا قانون، بچے کی پیدائش کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پاکستانی شہری مانتا ہے۔ یعنی اس قانون کے تحت کرن جیسے بچوں کو پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے گا۔ شناخت ان بچوں کا حق ہے۔ یہ حق انہیں اور ان جیسے سب بےزمین، بے شناخت بچوں کو ملنا چاہیے، تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کریں۔ اور ان کی زندگی بہتر ہو۔

شمس الدین بنگالی صاحب، مچھر کالونی کے بزرگ رہائشی ہیں اور المدد نامی سماجی تنظیم کے نائب صدر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مچھر کالونی میں 20 ہزار گھر ہیں۔ اور لگ بھگ تین لاکھ بنگالی آبادی ہے۔ زیادہ تر گھرانوں کا مسئلہ شناختی کارڈ کا نہیں ملنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نارا (National Aliens Registration Authority) اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اس حوالے سے نادرا کراچی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ڈیٹا کے مطابق 95 ہزار بنگالی، نارا کے تحت رجسٹرڈ ہیں جو بنگالی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہیں پاکستانی شہری تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی قانون کے تحت ان کے بچوں کو بھی پاکستانی شہریت نہیں دی جا سکتی۔‘ لیکن زیادہ تر بنگالی آبادی نادرا اس موقف کو تسلیم نہیں کرتی۔ شمس الدین اور بنگالی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری تھے اور رہیں گے۔ یہ ہی نہیں بلکہ جن کے پاس مکمل کاغذات موجود ہیں، ان کے نام بھی نارا کی لسٹ میں شامل ہیں۔

مچھر کالونی کی رہائشی اور بیگم ہاجرہ گورنمنٹ گرلز اینڈ بوائز سکول کے صدر مدرس راشد سردار کا کہنا ہے کہ بنگالی برادری کا بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی، کم علمی اور آگاہی کا فقدان ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ کون سا مسئلہ کس طرح حل ہو گا۔ حالانکہ بنگالی کمیونٹی کے لیے 1973  کا قانون موجود ہے۔ جو کہتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی بنگالی رہ رہے ہیں۔ انہیں مکمل پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے گا۔ یہ قانون ذوالفقار علی بھٹو کا پاس کیا ہوا ہے۔

 جہان تک نارا کی بات تو یہ 2000 سے سلسلہ شروع ہوا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس محکمے نے اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر نارا تحت رجسٹرڈ کیا۔ بہت سے لوگوں نے بروقت عدالت سے رجوع کیا۔ جن کا مسئلہ حل بھی ہو گیا۔ لیکن بہت سے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے نارا کی لسٹ میں شامل ہو گئے۔ یہ ہی نہیں جن کے سن ستر کے بھی شناختی کارڈ ہیں۔ ان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ زیادہ تر بنگالی کمیونٹی سے 1978 کے پہلے کی دستاویزات طلب کیے جاتے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مچھر کالونی کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ ماہی گیری ہے۔ یہ جب سمندر میں جاتے ہیں تو مہینہ مہینہ وہاں پر رہتے ہیں۔ تب جا کر ان کی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ کچی آبادی کی جھونپڑیوں میں رہنے والے لوگ کہاں اتنے پرانے دستاویز سنبھال کر رکھ سکتے ہیں۔

شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کمیونٹی تعلیم اور روزگار میں بہت پیچھے ہے۔ اگر کسی نے پرائیویٹ سکول میں آٹھویں جماعت تک پڑھ لیا ہے لیکن وہ میٹرک نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس ب فارم نہیں۔ نوجوانوں میں غصہ اور تناؤ بڑھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان چوری اور ڈکیتی کی طرف جا رہے ہیں۔ مچھر کالونی میں منشیات کا استعمال بھی عام ہے۔ نشہ کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں۔ اس کا حل ان کے پاس چوری ہی رہ جاتا ہے۔

اپنی بات جا رہی رکھتے ہوئے راشد سردار نے کہا کہ کاغذات کی عدم دستیابی کا مطلب غیر تعلیم یافتہ افراد، بے روزگاری اور غربت ہے۔ جو بنگالی آبادی کو مزید پیچھے دھکیل دے گی۔ راشد کے مطابق، محلے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے 11 سرکاری مخلوط سکول ہیں۔ جبکہ TCF,4 سکول اور یہاں 15پرائیویٹ اور 10 مدرسے ہیں۔ ان کے مطابق، تقریباً 4000 طلبہ و طالبات کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں جا رہے ہیں۔ لیکن غربت نے تعلیم کو ایک آسائش بنا دیاہے۔ اس وجہ سے بچوں اور والدین کی تعلیم پر توجہ کم ہے۔ خاص کر جب مچھر کالونی میں، 6-7ماہ جھینگے کی صفائی کا کام چلتا ہے۔ اس دوران بچے بچیاں یا تو جھینگوں کے پاڑے (فیکٹری) میں یا پھر گھروں سے جھینگے کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔ اس دوران بچے سکول نہیں جاتے اور غربت سب سے بڑی وجہ ہے، لیکن جو بچے پڑھنا اور آگے جانا چاہتے ہیں۔ انہیں داخلہ نہیں ملتا۔

بنیادی ضرورتوں کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی شناخت ہی سوالیہ نشان بن جائے، تو ماضی ناقابل بیان۔ حال، بے حال اور مستقبل بے یقین ہی رہتا ہے۔ کیونکہ نہ والدین کے پاس شناختی کارڈ ہو گا اور نہ ہی بچوں کا ب فارم بنے گا نہ کوئی سکول جائے گا، نہ کوئی روزگار۔ یعنی بے زمینی اور بے وطنی کے ساتھ بے یقینی کا یہ درد بڑھتا ہی جائے گا۔

کہنے کو یہ ایک کرن کی کہانی ہے۔ لیکن مچھر کالونی کے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ سرکار، انہیں پاکستانی تسلیم کرنے کے لیے ان سے دستاویزات طلب کرتی۔ جس میں وہ ’اس زمین اور مٹی‘ سے اپنا رشتہ ثابت کریں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل