دنیا بھر میں مردوں کے سپرم کی تعداد میں ’خطرناک‘ کمی: تحقیق

محققین نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ اس مسلسل کمی کی وجوہات پر تحقیق اور مردانہ تولیدی صحت میں مزید خرابی کو روکنے کے لیے اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

محققین نے (2011 سے 2018) تک سات اضافی سالوں کا ڈیٹا تجزیے میں شامل کیا ہے (تصویر: اینواتو)

ایک تازہ تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایشیا، افریقہ، جنوبی اور وسطی امریکہ میں مردوں کے سپرم کی تعداد میں گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران کمی آئی ہے اور اس سے قبل یہی رجحان جو شمالی امریکہ اور یورپ میں دیکھا گیا تھا، اس میں مزید تیزی آئی ہے۔

محققین جن میں ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے محققین بھی شامل ہیں، نے کہا ہے کہ یہ رجحان انسانوں کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ جانے کی علامت ہی نہیں بلکہ یہ مردوں کی مجموعی صحت کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کیوں کہ سپرم کی کم تعداد دائمی بیماری کے زیادہ خطرے اور عرصہ حیات میں کمی سے جڑی ہوئی ہے۔

ہیومن ریپروڈکشن اپ ڈیٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والے اس تجزیے میں 53 ممالک سے اکٹھا کیا گیا ڈیٹا شامل ہے۔ تجزیے میں ان علاقوں کے مردوں میں سپرم کی تعداد کے رجحان پر توجہ دی گئی ہے جن کا پہلے جائزہ نہیں لیا گیا۔

محققین نے (2011 سے 2018) تک سات اضافی سالوں کا ڈیٹا تجزیے میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے 223 تحقیقات کے ڈیٹا کا مجموعی طور پر تجزیہ کیا۔ یہ تحقیق 1973 سے 2018 تک اکٹھے کیے گئے نمونوں کو بنیاد بناتے ہوئے کی گئی ہے۔

سائنس دانوں نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں مرد حضرات میں سپرم کی تعداد کم ہوئی ہے اور یہ کمی جاری ہے۔ 2000 کے بعد اس کی رفتار میں ’چونکا دینے والی‘ تیزی آئی ہے۔

ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف ہاگائے لوین کا کہنا ہے کہ ’مجموعی طور پر ہم گذشتہ 46 سال میں دنیا بھر میں سپرم کی تعداد میں 50 فیصد کی اہم کمی دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں اس کمی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔‘

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بچے کی جنین کی حالت میں زندگی کے دوران تولیدی راستے کی نشوونما کے عمل میں پیدا ہونے والی خرابیاں زندگی بھر کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محرومی اور تولیدی نقص کی دیگر علامات کے ساتھ جڑی ہو سکتی ہیں۔

محققین نے خبردار کیا ہے کہ یہ نتائج ’آنے والے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ طرز زندگی کا انتخات اور ماحول میں موجود کیمیائی مادے ’جنین کی نشوونما پر مضر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر لوین کے بقول: ’ہمارے سامنے سنگین مسئلہ موجود ہے کہ اگر اس کی شدت کو کم نہ کیا گیا تو بنی نوع انسان کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ہمارا فوری مطالبہ ہے کہ تمام انواع کے لیے زیادہ صحت مند ماحول کے فروغ اور ہماری تولیدی صحت کو خطرے میں ڈالنے والے رویوں اور ماحول میں کمی کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سپرم کی کم تعداد عام طور پر مردوں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ معاملہ دوسرے رجحانات کے ساتھ جڑا ہوا ہے جسے ’خصیوں‘ کی بیماریاں کہا جاتا ہے۔

آئیکان سکول آف میڈیسن، ماؤنٹ سائنائے، نیویارک، سے تعلق رکھنے والی تحقیق کی ایک اور مصنفہ ڈاکٹر شنا سوین کہتی ہیں کہ ’مردوں کے نطفے کے ارتکار میں پریشان کن کمی اور جیسا کہ ہماری تحقیق میں بتایا گیا ہے، سپرم کی مجموعی تعداد ہر سال ایک فیصد سے زیادہ ہونا، دوسرے مردوں کی صحت کے حوالے سے نتائج میں منفی رجحانات، مثال کے طور پر خصیوں کا سرطان، ہارمون کی خرابی، اعضائے تناسل کی نشوونما میں نقائص اور نسوانی تولیدی صحت کی خرابی، کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔‘

محققین نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ’ڈیٹا بتاتا ہے کہ 21 ویں صدی میں یہ کمی دنیا بھر میں زیادہ رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ اس مسلسل کمی کی وجوہات پر تحقیق اور مردانہ تولیدی صحت میں مزید خرابی کو روکنے کے لیے اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔‘

(ترجمہ: علی رضا)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق