فتنے کا احتمال نہ ہو تو قبریں کچی کی جا سکتی ہیں: دارالعلوم حقانیہ

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’صوابی خاص‘ کے مرکز میں واقع ایک قبرستان میں اصلاحی جرگہ اراکین اور دیگر مقامی افراد پختہ قبریں توڑ رہے ہیں اور علاقہ مکینوں کو مستقبل میں قبریں پختہ نہ کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔

 اصلاحی جرگہ کے صدر نوراللہ (سکرین گریب)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں 28 نومبر کو مختلف دیہاتوں میں اصلاحی جرگہ کے علما نے پختہ قبریں ’شریعت کے منافی‘ قرار دیتے ہوئے سیمنٹ اور ماربل اتروا کر کچی کروا دیں۔

اس معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے اکوڑہ خٹک کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے مولانا حزب اللہ سے حدیث و قرآن کی روشنی میں رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ قبروں کو مفاد عامہ کے پیش نظر کھولنے، کچا کرنے یا ہموار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگراس میں کسی فتنہ کا احتمال نہ ہو۔ ’اگر اس میں فتنہ کا احتمال ہو، تو پھر ایسے کسی کام سے گریز کرنا چاہیے۔‘

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’صوابی خاص‘ کے مرکز میں واقع ایک قبرستان میں اصلاحی جرگہ اراکین اور دیگر مقامی افراد پختہ قبریں توڑ رہے ہیں اور علاقہ مکینوں کو مستقبل میں قبریں پختہ نہ کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔

متعلقہ ویڈیو میں نظر آنے والے اصلاحی جرگہ کے صدر نوراللہ نے ویڈیو میں کہا کہ انہوں نے مثال قائم کرنے کے لیے ابتدا اپنے علاقے سے کی ہے تاکہ دیگر لوگ اثر لے کر ان کی پیروی کریں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر کہ آیا اس اقدام کی مقامی طور پر مخالفت بھی ہوئی، نوراللہ نے بتایا کہ سب سے پہلے انہوں نے آگہی مہم چلائی کہ ’اسلام میں قبروں کو پختہ کرنا منع ہے اور اگر کسی قبر کو پختہ کیے 40 سال یا اس زائد ہوچکے ہوں تو ایسی قبر کو ہموار کرکے مردہ دفن کیا جا سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے مقامی پولیس سٹیشن سے بھی رابطہ کیا گیا جس کے سٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) الطاف خان نے بتایا کہ کسی شہری کی جانب سے پولیس کے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔

متعلقہ فیصلے کا پس منظر کیا تھا؟

صوابی خاص میں اصلاحی جرگہ کے صدر نوراللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دراصل پختہ قبروں کا کنکریٹ اتار کر ان کو کچا کرنے کا بنیادی مقصد قبرستان میں جگہ بنانا اور زرعی زمین کو بچانا تھا، جس کے لیے علما کا تعاون حاصل کیا گیا۔

’قبرستان میں جگہ کم پڑنے پر لوگ زرعی زمینوں میں اپنے مردے دفنانے لگے ہیں۔ دوسری جانب، تمام قبرستانوں میں صورتحال یہ ہے کہ لوگ کئی کئی منزلہ کنکریٹ اور ٹائلز کی  بڑی قبریں بنا کر خود تو دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھتے لیکن اس سے ایک بگاڑ جنم لے رہا ہے۔‘

ضلع صوابی میں گاؤں ڈاگئی کے اصلاحی جرگہ کے صدر کشورزمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوری 2022 میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے’عوام میں شعور اجاگر کرنے کی خاطر سوشل میڈیا پر اُن پختہ قبروں کو کچا کرنے کا پیغام دیا تھا جن کا کوئی ولی وارث نہیں تھا اور جن کو دہائیاں بیت چکی تھیں۔‘

انہوں نے پختہ قبروں کی مخالفت کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ دراصل ان کے گاؤں کی زمین بہت قیمتی ہے اور ’قبرستان کی جگہ نہایت کم ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ایسے میں جب عارضی طور پر منتقل ہونے والے خاندان اپنے مردوں کے لیے پختہ قبریں بنوا کر چلے جاتے ہیں تو اس سے زمین کے حصہ داروں کو کوفت اٹھانی پڑ رہی ہے۔

’گاؤں کے قبرستان پر گاؤں کے لوگوں کا ہی حق ہے اور چونکہ اسلام میں ایک خاص مقصد کے تحت پختہ قبروں کی ممانعت کی گئی ہے، اسی وجہ سے ہم نے لوگوں کو اس سے بھی آگاہ کیا۔ تاہم سوشل میڈیا پر ایک تاثر ابھرا کہ اصلاحی جرگہ دین کے احکامات کو  معاشرے میں تخریب کاری کے لیے استعمال کررہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں ان کا ارادہ ہے کہ ’ایک گرینڈ جرگہ بلا کر باہمی مشاورت سے قدیم بوسیدہ قبروں کو ہموار کرکے وہاں شجرکاری کر کے ایسے پودے لگائیں جن سے آمدن ممکن ہو اور پھر وہ پیسہ عوام کی فلاح کے لیے استعمال ہو سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب، صوابی کے تھانوں میں معاشرتی مسائل کو مقامی روایات کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے رائج ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (ڈی آر سی) کےچیئرمین افسرخان نے بھی متعلقہ واقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کی اور کہا کہ آس پاس کے دیگر دیہاتوں میں بھی اس عمل کی پیروی میں خاص طور پر قبروں کو کچا کرنے کا عزم جاری ہے، جن کو چار دہائیاں یا اس سے زائد ہو چکی ہوں۔

’مختلف علاقوں جیسے کہ مانیری، صوابی، یعقوبی، ٹوپی وغیرہ میں ڈی آر سی کے مقامی جرگوں اور مشران و علمائے کرام نے پختہ قبروں کو مسمار کر کے انہیں سنت کے مطابق کچا کر دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کو مقامی طور پر سراہا جا رہا ہے۔

تاہم، دوسری جانب، ایک علاقہ رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ کہا کہ ’ایسے اقدامات اٹھاتے وقت خصوصی خیال رکھا جائے کہ کہیں انتشار اور فساد کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ عوام کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے کیوں کہ پشتون معاشرے میں اسلامی اور مقامی روایات صدیوں سے ایک ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ اگر کوئی خصوصی طور پر اس عمل کو دین کی ترویج اور پیروی قرار دیتا ہے تو پھر پیر بابا، حاجی ترنگزی صاحب، داتا گنج بخش اور کئی دیگر نامی گرامی شخصیات اور بزرگان دین کی قبروں کو بھی کچا کرنا ہو گا۔‘

(ج ح)

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان