تحریک انصاف صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں سنجیدہ ہے؟

پاکستان تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مشاورت کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب اسے ایسا کرنے سے روکنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی مشاورتیں ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ایسا اقدام روکنے کے لیے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں مشاورتیں اور بیانات شدت اختیار کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے ’تعلقات بہتر‘ ہیں اور وہی ہوگا جس کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔

اُدھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’ہم خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

جبکہ وفاق میں حکمراں جماعت کا موقف ہے کہ کوشش کریں گے کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں۔

ملک کے سیاسی منظر نامے پر یہ بیان بازی اور پارلیمانی و سیاسی ہلچل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد شروع ہوئی، اور اب ایک بار پھر جوڑ توڑ، میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

سب سے زیادہ پنجاب میں حکومت ختم ہونے، تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے یا گورنر راج نافذ ہونے کے امکانات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔

ایک طرف پی ٹی آئی دو صوبوں میں اپنی حکومت تحلیل کرنے یا نہ کرنے پر غور کر رہی ہے تو دوسری جانب وفاق میں حکمران اتحاد سیاسی بحران پر قابو پانے اور ملک میں قبل از وقت انتخابات کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔

تحریک انصاف بھی اس بڑے سیاسی فیصلے سے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے لیکن عمران خان کے اسمبلیوں سے باہر نکلنے کے اعلان اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی اور پرویز خٹک سے ملاقاتوں کے باوجود حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں صوبائی حکومتیں ختم کرنا پی ٹی آئی کے لیے آسان فیصلہ نہیں، کیوں کہ اس سے قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت بھی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں لگتی۔

اسمبلیاں تحلیل کرنا یا قبل از وقت انتخابات ممکن ہیں؟

اس سوال کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما پرویزخٹک نے عمران خان سے پرویز الہی کی آج ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’جو بھی فیصلہ ہوگا پرویز الہی عمران خان کی ہدایت پر عمل کریں گے، پرویز الہٰی سے میرا ذاتی تعلق رہا ہے، میں چاہتا ہوں پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہ ہو سب مل کر فیصلہ کریں گے، ایسا معاملہ نہیں جیسا بتایا جا رہا ہے، پرویز الہٰی کے تعلقات عمران خان سے بہتر ہیں، ہم سب ایک پیج پر ہیں جو فیصلہ عمران خان کا ہوگا وہی سب کا ہوگا۔‘

اُدھر سابق صدر آصف علی زرداری نے آج نیوز ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم کے پی اور پنجاب اسمبلی میں وزرائے اعلی کے خلاف تحریک عدم لانے کی تیاری کر رہے ہیں، جب حکومت ہی تبدیل ہوجائے گی تو اسمبلی تحلیل کر کے سیاسی انتشار پھیلانا ممکن نہیں ہوگا۔‘

جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ ’اسمبلیاں توڑنے کا عمل کبھی بھی سیاسی جماعتوں اور ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتا لہذا کوشش کریں گے کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں، گورنر راج اور عدم اعتماد آئینی طریقے ہیں اور یہ استعمال ہوسکتے ہیں۔‘

اسلام آباد میں جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’بحرانی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کے پی اور پنجاب اسمبلی سے نکلنے کی بات کر رہے ہیں، کرپٹ نظام سے نکل رہے ہو تو صدر کو نکالو، سینیٹ سے نکلو، جی بی اور کشمیر سے بھی نکلو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سنا ہے 20 دسمبر سے وہ استعفی دیں گے، اگر فیصلہ کرلیا ہے تو 20 دسمبر تک انتظارکیوں؟ عمران خان صرف عدم استحکام چاہتا ہے تاکہ ملک افراتفری کی طرف جائے۔‘

وزیر داخلہ کے بقول مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی مشاورت چل رہی ہے، پنجاب اور کے پی اسمبلی ٹوٹنے پربلوچستان اور سندھ میں تو الیکشن نہیں ہوگا، مرکز میں تو نگران حکومت نہیں ہوگی، اسمبلی توڑنے کا عمل غیر سیاسی اورغیرجمہوری عمل ہے، اگرعمران کے پی اور پنجاب اسمبلی توڑتے ہیں تو آئین قانون کے مطابق ہوگا، پہلے قومی اسمبلی کے استعفے کی آکر تصدیق کریں۔‘

مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آج ہماری عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں ان کو یقین دہانی کرادی ہے کہ یہ وزارت اعلٰی ان کی امانت ہے جب وہ چاہیں گے پنجاب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔‘

کیا پی ٹی آئی صوبائی حکومتیں ختم کرنے میں سنجیدہ ہے؟

عمران خان نے راولپنڈی لانگ مارچ سے خطاب کے دوران کے پی اور پنجاب اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان پر کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا جس پر سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چوہدری پرویز الہی صوبہ میں جس طرح فنڈز جاری کر رہے ہیں اور سیاسی طور پر مضبوط ہونے کے لیے کوشاں ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت ختم کرنا یا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا نہیں چاہتے۔ اگرچہ وہ بیانات دے رہے ہیں کہ جب عمران خان کہیں گے حکومت چھوڑ دیں گے اور اسمبلی تحلیل کر دیں گے لیکن اعلان کے باوجود ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’کے پی میں بھی تحریک انصاف کے وزرا جو بیان دے رہے ہیں ان سے نہیں لگتا وہ اسمبلی تحلیل کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ سب کو معلوم ہے کہ دونوں حکومتیں چھوڑ کر بھی وفاق میں قبل از وقت انتخابات ممکن نہیں تو پرویز الہی اور پرویز خٹک عمران خان کو قائل کر رہے ہیں کہ ہمیں صوبائی حکومتیں چھوڑ کر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تحریک عدم اعتماد آنے یا گورنر راج لگنے سے حکومت بھی چلی جائے گی اور اگراسمبلی تحلیل ہوبھی گئی تو زیادہ سے زیادہ دونوں صوبوں میں ضمنی انتخاب ہوجائے گا۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ سیاسی جماعت اقتدار میں ہو تو سیاسی طور پر مستحکم رہتی ہے حکومت چھوڑ دی تو جتنی طاقت موجود ہے وہ بھی جائے گی اور بات چیت کے دروازے بھی بند ہوجائیں گے۔

تجزیہ کار کے مطابق: ’ملکی صورتحال کے پیش نظر عمران خان کو بہتر مشورے دیے جا رہے ہیں کہ سیاسی قوتوں سے محاذ آرائی کے بجائے مذاکرات بہتر حل ہے کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر سیاست سے خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان اور عملی مظاہرہ کر چکی ہے جب وہ مداخلت نہیں کرنا چاہتے تو عمران خان سیاسی قیادت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے کیسے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں؟‘

سلمان غنی کے خیال میں وفاقی حکمران اتحاد دونوں صوبوں میں حکومت حاصل کرنے کی بجائے انتخابی اصلاحات کر کےاور معاشی صورتحال میں بہتری کے بعد الیکشن کرانے کے فیصلہ پر قائم ہے۔

’جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو عمران خان کا سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملہ حل کرنا ضروری ہے ورنہ انہیں اور پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان ہوگا کہ حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی اور قبل از وقت انتخابات بھی نہ ہوں گے۔‘

تنزیلہ مظہر کے بقول اگر اسمبلیاں تحلیل یا استعفے دینے ہوتے تو اب تک پی ٹی آئی اس پر عمل کر چکی ہوتی مگرانہیں اندازہ ہے کہ بلاوجہ دونوں صوبوں میں اقتدار چھوڑنا عقلمندی کا فیصلہ نہیں ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ملک میں دو صوبائی حکومتوں کے مستقبل کے تناظر میں سیاسی بحران توکھڑا ہوچکا ہے مگر اس کا حل تناؤ کی پوزیشن میں مکمن نہیں سیاسی قیادت کو میز پر بیٹھنا ہوگا اور اس کا حل نکالنا ہوگا ورنہ کسی کا سیاسی فائدہ ہو نہ ہو موجودہ صورتحال میں عوام کی مشکلات مذید بڑھ جائیں گی۔‘

ان کے خیال میں جس طرح حالات کشیدہ ہیں ایسے میں کوئی جمہوری راستہ نکالنا پڑے گا اس بات کا اندازہ شاید عمران خان کو بھی ہوچکا ہے۔

’میرا خیال ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی طرف نہیں جائیں گے کسی درمیانے حل پر غور کیا جائے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست