پشاور میں فلافل متعارف کروانے والے عراقی شہری

عراق سے تعلق رکھنے والے نواف عباسی نے پہلی مرتبہ پشاور میں عربی خوراک فلافل متعارف کروائی ہے جبکہ وہ دیگر نوجوانوں کو بھی فلافل بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔

’میں عراق چھوڑ کر لندن، ترکی اور دیگر ممالک میں عرصہ گزار چکا ہوں۔ وہاں پر ملازمت کی پیش کش بھی ہوئی لیکن پشاور میں مستقل طور پر رہائش اختیار کی اور اب پشاور کے عوام کے لیے عربی خوراک فلافل متعارف کی۔‘

عراق سے تعلق رکھنے والے نواف عباسی نے پہلی مرتبہ پشاور میں عربی خوراک فلافل متعارف کروائی ہے۔

انہوں نے پشاور کی ایک خاتون سے شادی کی اور 1995 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں انہیں پاکستانی شہریت دی گئی تھی۔

نواف نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ماہر تعلیم ہیں۔ وہ سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں پر بطور استاد خدمات انجام دیتے رہے۔

لیکن اب انہوں نے کاروباری شعبے میں قدم رکھا ہے۔ انہوں نے پشاور کے ڈیز ٹریڈ سینٹر کی ایک چھوٹی سی دکان میں فلافل کا سیٹ اپ بنایا ہے، جہاں وہ دیگر دو نوجوانوں کو بھی فلافل بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے پشاور کی رہائشی خاتون سے جب شادی کی تو مستقل طور پر پشاور منتقل ہوگیا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ میں نے اس وقت کے وزیر داخلہ کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو درخواست دی اور مجھے پاکستانی شہریت مل گئی۔‘

نواف عباسی کے بیٹے اور بیٹیاں پشاور ہی میں رہائش پذیر ہیں۔

فلافل متعارف کروانے کے پیچھے سوچ کے حوالے سے سوال کے جواب میں نواف نے بتایا کہ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ نئی ڈش پشاور کے شہریوں کے لیے پیش کی جائے۔

فلافل کیا ہے؟

فلافل عربی زبان کا لفظ ’فلفل‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی ’مرچ‘ کے ہیں۔ یہ خوراک مشرق وسطیٰ سمیت سعودی عرب، یورپ، لندن اور امریکہ میں بھی کھائی جاتی ہے۔

نواف عباسی نے بتایا کہ فلافل ایک صحت مند خوراک ہے کیونکہ ایک تو یہ مکمل طور سبزی اور دال سے بنائی جاتی ہے اور دوسرا اس میں استعمال ہونے والے اجزا زیادہ تر قدرتی ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ باہر دنیا میں فلافل ریپ (خاص قسم کی روٹی، جسے ٹورٹیلا ریپ کہتے ہیں) میں ملتا ہے لیکن پاکستانی ذائقے کے مطابق یہاں پر میں نے فلافل برگر اور فلافل پلیٹر بھی متعارف کروایا ہے۔

فلافل میں چنے اور کچھ سبزیاں مکس کر کے پیسٹ بنایا جاتا ہے اور اس کے کباب بنائے جاتے ہیں، جسے سینڈوچ اور ریپ سمیت برگر میں پیش کیا جاتا ہے۔

نواف عباسی کے مطابق سینڈوچ اور برگر دونوں کے لیے خاص قسم کا سرکہ بھی بنایا جاتا ہے جبکہ ساتھ میں میکسیکو کا ایک قسم کا سرکہ بھی اس میں استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’یہاں جو فلافل میں بناتا ہوں یہ اصلی عربی ذائقے والا فلافل ہے۔ اگر کسی نے باہر دنیا میں چیک کیا ہو تو یہاں کے ذائقے اور اس میں آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔‘

لوگوں کی فلافل میں دلچسپی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ابھی تو انہوں نے چھوٹی سی دکان کھولی ہے لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کو جب پتہ لگے گا تو وہ فلافل کو چکھنے کے لیے ضرور آئیں گے۔

پشاور ہی کیوں؟

جب ان سے پشاور میں رہائش اختیار کرنے سے متعلق پوچھا گیا تو نواف عباسی نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کا تعلق پشاور سے ہے اور اسی وجہ سے انہیں یہاں سے دلی لگاؤ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’اب بھی میرے بہن بھائی اور باقی فیملی عراق میں ہی ہے اور میں وہاں ان سے ملنے آتا جاتا ہوں، لیکن دل میرا پشاور میں ہے اور یہیں پر جینا مرنا ہے۔‘

نواف عباسی گذشتہ تقریباً 30 سالوں سے پشاور میں رہائش پذیر ہیں تاہم ابھی تک انہوں نے کچھ حد تک ہی پشتو اور اردو سیکھی ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا: ’میری مادری زبان عربی ہے، تو اہلیہ نے میرے لیے عربی سیکھی تو اب گھر میں عربی میں بات چیت ہوتی ہے لیکن جب بچے کچھ خفیہ بات کرنا چاہتے ہیں، تو آپس میں پشتو بولتے ہیں لیکن میں پشتو اور اردو سیکھنے کی اب کوشش کر رہا ہوں۔‘

 فلافل پر اسرائیل کا دعوٰی

نواف عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فلافل کی تاریخ بہت دلچسپ ہے کیونکہ یہ عربی خوراک مانی جاتی ہے، تاہم اس پر اسرائیل کا دعوٰی بھی ہے۔

اس کا ذکر خوراک کی تاریخ پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ الہ دینز ہوسٹن پر بھی موجود ہے۔ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ فلافل پہلی مرتبہ مصر میں متعارف ہوا تھا تاہم یہ کب ہوا، اس کے بارے میں متضاد دعوے موجود ہیں۔

بعض مورخین سمجھتے ہیں کہ یہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے متعارف ہوا تھا جبکہ بعض مورخین کا دعوٰی ہے کہ یہ چھٹی صدی میں انڈیا میں متعارف ہوا تھا۔

تاہم 19 ویں صدی میں پیش کیا جانے والا دعویٰ مستند سمجھا جاتا ہے کہ یہ خوراک مصر میں تب متعارف ہوئی جب انگریزوں نے مصر پر 1882 میں قبضہ کیا۔

الہ دینز ہوسٹن ویب سائٹ کے مطابق قبضے کے بعد انگریزوں کو انڈیا میں رہتے ہوئے سبزی سے بنے کروکیٹس بہت پسند تھے اور جب وہ مصر چلے گئے تو وہاں پر باورچیوں کو بتایا گیا کہ وہ کروکیٹس کا مقامی ورژن کسی طریقے سے بنائیں۔

اور یوں پہلی مرتبہ مصر کے مشہور شہر الیگزینڈریا میں فلافل متعارف ہوا لیکن اس وقت فلافل میں چنے کی جگہ فاوا لوبیا (fava bean) کا پیسٹ استعمال کیا جاتا تھا لیکن بعد میں اس میں چنے کا استعمال شروع ہوگیا۔

مورخین سمجھتے ہے کہ اس کا نام بھی فاوا سے فلافل ہوگیا کیونکہ فاوا لوبیا کو مصری زبان میں ’فل‘ کہتے ہیں تو اس طرح یہ فلافل بن گیا۔

تاہم فلافل کو پہلی بار متعارف کرنے کا تنازع اب بھی قائم ہے اور اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی زبان ہے اور اسرائیل میں فلافل کو قومی خوراک کے طور پر کھایا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا