لاندی: ’سردی دور کرنے کے لیے بہترین خوراک‘

بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے رود ملازئی میں دنبے کے گوشت کو سُکھا کر بنائی جانے والی وہ خوراک جو سردیوں میں برف باری سے راستے بند ہو جانے کے بعد بیشتر مقامی افراد کی خوراک ہوتی ہے۔

کوئٹہ سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ضلع پشین کے علاقے رود ملازئی میں موسم سرما میں دیگر علاقوں کی نسبت برف باری زیادہ ہوتی ہے، ایسے میں یہاں کے لوگ خود کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص خوراک ’لاندی‘ کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ علاقہ ایک ندی اور پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں آبادی دور اور گھر پہاڑوں کے درمیان ہیں۔ 

یہاں مختلف پشتون قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر ہیں، جن کے ہاں قبائلی روایات اب بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک سردیوں کے لیے گوشت کو خشک کرکے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔

سردیوں میں اکثر گھروں کے مکین روایتی انگیٹھی (جس میں کوئلہ اور لکڑی جلائی جاتی ہے) کے گرد بیٹھ کر خود کو ٹھنڈ سے بچاتے ہیں۔

اسی علاقے کے رہائشی محمد ہاشم نے بتایا: ’چوںکہ ہمارا علاقہ شدید سرد اور برفباری کی رینج میں ہے، اس لیے یہاں پر سردیوں کے تین مہینوں کے دوران نظام زندگی مفلوج  ہوجاتا ہے، مکین گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں، برفباری کے باعث راستے بند ہوجاتے ہیں، ماضی میں سہولیات کی کمی کے باعث ہمارا بازار سے رابطہ بھی اکثر کئی دنوں تک منقطع رہتا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایسی صورت حال میں جب راستے بند ہوں اور باہر برف کے باعث سردی بھی ہو تو اس کا مقابلہ ہم اپنے روایتی طریقے سے کرتے ہیں، جس میں ہم سردیوں کی آمد سے پہلے گوشت کو خشک کرکے لاندی بناتے ہیں۔‘

ہاشم نے بتایا کہ لاندی کا لفظ پشتو زبان میں رائج ایک مہینے کا نام ہے، جو نومبر کے قریب کا مہینہ ہے، جسے ’لیندے‘ کہتے ہیں۔ یہ گوشت ان ہی مہینوں میں خشک کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، اس لیے اس کو لاندی کہا جانے  لگا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں کے باشندے جو اکثر مویشی بھی پالتے ہیں، وہ جانور ذبح کرکے ان کا گوشت خشک کرتے یا سُکھا لیتے تھے۔ ’یہ گوشت دنبے کا ہوتا اور گرم ہونے کے باعث یہاں کے باشندوں کو سردی کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے اور یہ لوگ  اپنے روز مرہ کے کام بھی سرانجام دیتے تھے۔‘

محمد ہاشم نے بتایا کہ ’اب یہ رواج تو موجود ہے لیکن اس میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مہنگا پڑتا ہے اور دوسری بات کہ نئی نسل کو زیادہ پسند نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’اب چند لوگ ہی اسے بناتے ہیں اور کوئی ایک یا دو جانور اس کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔‘

ہاشم کے بقول: ’اس کے لیے ہم مئی جون میں ایک دنبہ مخصوص کردیتے ہیں، جس کو زیادہ خوراک بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ فربہ ہو کر زیادہ گوشت دے۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں کے دوران ہم اس دنبے کو ذبح کرکے اس کے پیٹ سے انتڑیاں وغیرہ نکالنے کے بعد کھال پر سے بال آگ کے ذریعے ختم کرتے ہیں۔ یہ گوشت کھال سمیت بعد میں خشک ہونے کے لیے لٹکا دیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہاں کا مخصوص موسم اور آب وہوا اس گوشت کو 40 دن کے دوران خشک کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے ایک مخصوص لکڑی استعمال کی جاتی ہے، جس پر اس کو رکھا جاتا ہے، جسے ہم پشتو زبان میں منئی کہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’خشک ہونے کے بعد یہ گوشت کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور جب اس علاقے میں برف باری ہوتی ہے اور موسم انتہائی سرد ہو جاتا ہے تو اس گوشت کو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے۔‘

محمد ہاشم کہتے ہیں کہ اس گوشت کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اسے پکانے کا طریقہ بھی آسان ہے۔ ’گوشت کو ہم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر پہلے زمانے میں مٹی سے بنی دیگ میں ڈالتے تھے، لیکن اب اس کی جگہ پریشر ککر نے لے لی ہے۔ اس میں ڈال کر پیاز ڈال کر اس کا شوربہ بناتے ہیں۔ اس شوربے میں ہم روٹی ڈال کر اس کو خوب ملاتے ہیں، جو ہم خود اور اپنے مہمانوں کو پیش کرتے ہیں اور گوشت کو الگ سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بنانے میں ٹماٹر اور دوسری چیزوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘

محمد ہاشم کہتے ہیں کہ ’ماضی میں اس علاقے کے لوگ سردیوں کے موسم کے لیے اپنی خوراک اور سامان ایک ہی بار جمع کرکے رکھتے تھے، جسے ہم پشتو میں ایئر کہتے ہیں۔ اس سامان میں آٹا، کھانے پینے کی اشیا اور لاندی کا گوشت شامل تھا، جو برف باری کے دوران راستے بند ہونے اور سردی کی شدت میں اضافے کے باعث لوگوں کے گھروں میں بند ہو جانے کے بعد کام آتا تھا۔‘

ہاشم کہتے ہیں کہ ’لاندی کا گوشت بکرے سے بھی بنتا ہے لیکن یہاں کے لوگ دنبے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جس کا گوشت سفید ہوتا ہے اور سردی میں یہ مزیدار بنتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’یہ گرم بھی ہوتا ہے اور سردی کی شدت کم کرنے کے لیے یہ بہترین خوراک ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا