صحافت کے طلبہ عملی زندگی کی مشکلات سے کیسے بچیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ’انڈی کیمپس‘ پروگرام کے تحت منعقدہ سیمینار میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ عملی زندگی کی مشکلات سے بچنے کے لیے صحافت کے طلبہ کو کیا کرنا چاہیے۔

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں 30 نومبر 2022 کو انڈپینڈنٹ اردو کے ’انڈی کیمپس‘ پروگرام کے تحت منعقدہ سیمینار میں شریک طلبہ (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں صحافت کے شعبے سے منسلک طلبہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دوران تعلیم سیکھنے ہی میڈیا اداروں سے روابط استوار کریں تاکہ عملی زندگی میں قدم رکھنے پر انہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پاکستان کے مختلف شہروں کی جامعات میں ’انڈی کیمپس‘ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں 30 نومبر کو ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔

اس موقع پر طلبہ سے خطاب کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کے مینیجنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے کہا کہ پاکستان میں شعبہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافی بننا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر طلبہ محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کریں اور اسی دوران میڈیا اداروں سے بھی رجوع کریں تو جلد ہی انہیں عملی صحافت سے متعلق آگاہی مل سکتی ہے۔

ہارون رشید نے کہا کہ ’اگر طلبہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو کر نئے آئیڈیاز کے ذریعے تعلیم کے دوران ہی عملی صحافت سیکھنے پر توجہ دیں تو وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ان دنوں صحافیوں کو نوکریوں اور معاشی مسائل سے متعلق مسائل کا سامنا ہے مگر دور حاضر میں جس طرح ڈیجیٹل میڈیا فروغ پا رہا ہے، اس میں نوجوان بطور صحافی اپنی صلاحیتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس طرح انہیں نہ صرف شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کا موقع مل سکتا ہے بلکہ وہ پیشہ ور صحافی بھی بن سکتے ہیں۔

اس دوران طلبہ نے سوالات بھی کیے، جن کے جواب دیتے ہوئے ہارون رشید نے بتایا کہ بے شک میڈیا اداروں میں نوکریاں فراہم کرنے اور طلبہ کی تعداد یا صلاحیتوں کے مطابق روزگار فراہم کرنے پر زیادہ فوکس نہیں لیکن جو لوگ اپنے آپ کو بطور صحافی ثابت کر سکتے ہیں، ان کے لیے جگہ بن ہی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا ہاؤسز زیادہ تنخواہیں ادا نہیں کر رہے لیکن ابتدائی طور پر عملی صحافت سیکھ کر ترقی بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور ایسی مثالیں موجود بھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ہارون رشید: ’طلبہ صرف نیوز اینکرنگ یا رپورٹنگ پر ہی فوکس نہ کریں بلکہ دیگر شعبوں مثلاً ایڈیٹنگ یا پروڈکشن کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ہر شعبے میں ترقی کے موقع ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔‘

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر میاں حنان احمد نے بھی سیمینار میں گفتگو کی اور کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کی طرف پھیلاؤ سے صحافت کے شعبے میں نئی جدت آئی ہے۔

فیک نیوز کو ’سب سے بڑا چیلنج‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’چاہے وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہو یا مقامی میڈیا کی وجہ سے مگر بڑے ڈیجیٹل بڑے اس کی حوصلہ شکنی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور وقت کے ساتھ اس میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر میاں حنان احمد نے مزید کہا کہ ’انڈپینڈنٹ اردو کی طرح میڈیا آرگنائزیشنز صحافت میں جس طرح مصدقہ معلومات کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہیں، اس سے طلبہ کے مستقبل میں حقیقی صحافت اپنانے کے مواقع بھی دکھائی دینے لگے ہیں اور ہم بھی تعلیمی اداروں میں بچوں کو صحافت کے نئے ٹرینڈز کی تربیت پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس دور میں طلبہ باعزت روزگار کمانے کے لیے صحافی بننے کی جدوجہد جاری رکھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس