کے پی: ’خواتین ووٹرز کے کم ٹرن آؤٹ کی واحد وجہ پدرسری نظام نہیں‘

2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کے اضلاع کرک اور شانگلہ میں کی گئی یونیورسٹی آف پشاور کی تحقیق کے مطابق گھروں سے دور اور مرد اور خواتین کے لیے مشترکہ پولنگ سٹیشنز کے باعث خواتین ووٹ کے استعمال سے گریز کرتی ہیں۔

یونیورسٹی آف پشاور کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا میں عورتوں کی بحیثیت ووٹرز رجسٹریشن اور خواتین ووٹرز کے حق رائے دہی کے استعمال کی شرح کم ہونے کی واحد وجہ پدر سری نظام نہیں ہے۔

جامعہ کے شعبہ پولیٹیکل سائنس نے 2018 کے انتخابات کے دوران صوبے کے دو اضلاع شانگلہ اور کرک میں ایک تحقیق کی، جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ الیکشنز میں خواتین کی عدم دلچسپی کی کئی دوسری وجوہات ہیں۔

چیئرپرسن شعبہ پولیٹیکل سائنس شاہدہ امان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں اضلاع میں ووٹرز ٹرن آوٹ کے یکسر مختلف نتائج نے ثابت کیا کہ صوبے میں خواتین کی عدم دلچسپی کے لیے پدرسری نظام کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، جو اس مظہر کی اصل اور واحد وجہ نہیں ہے۔

شعبہ پولیٹیکل سائنس کی تحقیق میں معلوم ہوا کہ شانگلہ جہاں دس فیصد سے کم خواتین نے ووٹ کے حق کا استعمال کیا، اور کرک جہاں 95 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالا کی وجوہات کیا تھیں۔

شاہدہ امان نے تحقیق کے نتائج کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تعلیم کی زیادہ شرح والے ضلع کرک میں خواتین کے کم ٹرن آوٹ کی وجوہات میں گھر سے دور پولنگ سٹیشن یا مشترکہ پولنگ سٹیشن معلوم ہوئیں۔

’خواتین گھر سے دور یا مردوں اور عورتوں کے لیے ایک ہی (مشترکہ) پولنگ سٹیشن جانے کو تیار نہیں ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کترتے ہوئے کہا: ’ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ اگر وہ ووٹ ڈالنے جائیں گی تو گائے کو چارہ کون ڈالے گا اور گھر کا کام کاج کون کرے گا۔‘

شاہدہ امان کے خیال میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے خواتین میں انتخابات، ووٹ اور حق رائے دہی کے استعمال کی افادیت اور اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پولنگ سٹیشنز ووٹرز کے گھروں کے قریب ترین جگہوں کے قریب اور سماجی و ثقافتی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مرد اور خواتین کے لیے الگ الگ پولنگ سٹیشنز قائم کیے جانا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اکثر دیہی خواتین ووٹرز امیدوار یا ان کے سپورٹرز کا ووٹ کا بولنے کے لیے نہ آنے کو بھی حق رائے دہی استعمال نہ کرنے کی وجہ بتاتی ہیں۔

’ اکثر دیہاتوں میں خواتین کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی آیا نہیں جو انہیں مطلع کرے یا آگاہ کر سکے۔ اس لیے سیاست میں پہلے سے موجود خواتین کو آگاہی پھیلانے میں زیادہ کردار ادا کرنا چاہئے۔‘

شعبہ پولیٹیکل سائنس کی سربراہ نے کہا کہ اکثر لوگ موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتے۔

’وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے ان کے ووٹ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑا تو دوبارہ کیوں ووٹ استعمال کیا جائے۔‘ 

شاہدہ امان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کو بتانا اور یقین دلانا ہو گو کہ ان کا جانا اہم ہے، اور اس سے فرق پڑتا ہے۔

خواتین اور مرڈ ووٹرز میں فرق

الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان نے کے مطابق 2018 کے عام انتخابات کے دوران خواتین اور مردوں کے درمیان تناسب 12 فیصد سے زیادہ تھا، جسے اب کم کر کے 10 فیصد سے نیچے لایا جا چکا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شمشاد خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مرد ووٹرز کی تعداد خواتین ووٹرز سے 20 لاکھ زیادہ ہے، اور اس فرق کو ختم کرنے کی غرض سے آگاہی مہم پر کام جاری ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ عام انتخابات میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد گذشتہ الیکنشز سے زیادہ ہو گی۔

صوبائی الیکشن کمشنر نے بتایا کہ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار ایلیکٹورل سسٹم (آئی ایف ای ایس) اور نادرا کے تعاون سے خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت مجموعی طور پر دس اضلاع میں خواتین اور دیگر محروم طبقات کے شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ رجسٹر کروانے کی خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ 

شمشاد خان کے مطابق: ’سول سوسائٹی کا کردار اس مہم کے حوالہ سے بہت اہم ہے۔خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن مہم کے علاوہ ووٹر ٹرن آوٹ میں اضافے کے لئے بھی کوششوں کی ضرورت ہے، اور قومی ووٹرز ڈے بھی اسی آگاہی مہم کا حصہ ہے۔‘

خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی فہرستوں میں صِنفی فرق (جینڈر گیپ) کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کی بحیثیت ووٹرز رجسٹر کرنے اور عورتوں اور مردوں دونوں میں ووٹ کے استعمال کی اہمیت سے آگاہی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عالمی ووٹرز ڈے کے موقع پر پشاور میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان