قیمتی اور نایاب کبوتروں کے شوقین افغان شہری

کابل کے رہائشی غلام مصطفیٰ کبوتر بازی کے شوقین ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ صرف نسل بڑھانے اور خوبصورتی کے لیے کبوتر پالتے ہیں۔

کبوتر ایک زمانے میں پیغام رسانی کی غرض سے پالے جاتے تھے لیکن اب یہ صرف ایک شوق بن کر رہ گیا ہے۔ 

کبوتر بازی اگرچہ زیادہ تر لوگوں کی نظر میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہے لیکن کچھ لوگوں کا اس کے ساتھ بڑا لگاؤ ہوتا ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے رہائشی غلام مصطفیٰ کبوتر بازی کے شوقین ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ صرف نسل بڑھانے اور خوبصورتی کے لیے کبوتر پالتے ہیں۔

غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ افغانستان میں قیمتی ترین کبوتر دو چپ کبوتر ہوتے ہیں، جن کا ایک پر سرخ اور دوسرا پر زرد ہوتا ہے یا ایک زرد اور دوسرا سیاہ ہوتا ہے۔ اسے دوچپ کہا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کبوتر کی قیمت اس کی خوبصورتی اور دوسری خوبیوں کو دیکھتے ہوئے متعین کی جاتی ہے، جو 30 ہزار سے لے کر تین ساڑھے تین لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔

کبوتر بازی کا ایک دلچسپ پہلو ان کے مقابلوں کا بھی ہے۔ غلام مصطفیٰ کے مطابق ہر ملک میں کبوتربازی کے مقابلوں کا سسٹم الگ ہوتا ہے۔ ’ایران میں کبوتروں کو گاڑی میں لے جا کر صحرا میں چھوڑ دیتے ہیں تو ان میں سے جو کبوتر پہلے بیٹھ جاتا ہے، وہ ہار جاتا ہے اور جو کبوتر ہوا میں زیادہ وقت گزارے وہ جیت جاتا ہے، لیکن افغانستان میں کبوتربازی کا مقابلہ اس طرح ہےکہ کئی کبوتروں کے مالک اپنےگھروں کی چھتوں پر چڑھ کر کبوتروں کو چھوڑ دیتے ہیں، جو پھر ہوا میں لڑتے ہیں اور طاقتور کبوتر کمزور کبوتر کو گھماتے گھماتے اپنے ساتھ بٹھاتا ہے اور جیت جاتا ہے۔‘

غلام مصطفیٰ نے کبوتروں کی اقسام کے بارے میں بتایا کہ ان کے پاس سرخ پتنگ چپ ہے، جسے افغانستان کے شمال میں آتشی چپ بھی کہتے ہیں، جس کا ایک پر سفید اور باقی پورا بدن سرخ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول غلام مصطفیٰ: ’میرا یہ سرخ پتنگ چپ اصلی ہے کیونکہ اس کا ایک پر چپ ہے اور اس کے گلے میں طوق (گلےکا ہار) بھی ہے تو یہ سرخ پتنگ چپ اصلی اور نایاب ہے، کیونکہ پتنگ کبوتر میرے خیال میں افغانستان کا اپنا کبوتر ہے، جو جنگ اور کبوتر بازی میں ڈٹے رہنے والا ہے۔‘

انہوں نے مشکی کبوتر کے بارے میں بتایا کہ یہ بھی پتنگ کی ذات سے ہے اور افغانستان کا کبوتر ہے، جسے انہوں نے دو سال پہلے ساڑھے 14 ہزار افغانی میں خریدا تھا۔ اسے ہلکے نیلے رنگ کی وجہ سے مشکی کہا جاتا ہے، جس کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ کالے کبوتر کا پیلے دم سفید کے ساتھ جوڑ کرواتے ہیں، جس سے مشکی بچے پیدا ہوتے ہیں، یا پھر مشکی کا مشکی کے ساتھ جوڑ کرواتے ہیں تو مشکی ہی پیدا ہوتے ہیں اور اگر کبھی سرخ کا کالے کے ساتھ جوڑ کروایا جائے تو بچے سرخ مشکی ہوتے ہیں۔

غلام مصطفیٰ کے پاس امری کبوتر بھی ہے جو شیرازی ذات سے ہے، جسے انہوں نے اپنے ایک دوست سے ساڑھے دس ہزار افغانی میں خریدا ہے جبکہ ان کے پاس پتنگ ذات کے  لاکی (پنک) کبوتر بھی ہے، جس کے دونوں پروں میں سفیدی ہے اور باقی پورا بدن رنگین ہے، جس کی قیمت 20 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا