سخت گیر اسرائیلی گروپس کی مدد سے نتن یاہو پھر برسر اقتدار

انتخابی جیت کے بعد نتن یاہو نے کٹر قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے جو فلسطینیوں کے بارے میں اشتعال انگیز خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

سخت گیر اسرائیلی رہنما بن یامین نتن یاہو انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں آگئے ہیں جس کے بعد فلسطین میں کشیدگی میں اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کا مقابلہ کرنے والے 73 سالہ نتن یاہو پہلے ہی ملکی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنے پہلے تین سالہ دور کے بعد 2009 سے 2021 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نتن یاہو نے حلف برداری کی تقریب سے قبل پارلیمنٹ (کنیسٹ) سے خطاب میں کہا کہ ’یہ چھٹی مرتبہ ہے کہ میں ایسی حکومت بنانے جا رہا ہوں جسے پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور میں پہلی بار کی طرح پرجوش ہوں۔‘

اپوزیشن کے ناراض قانون سازوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’جمہوری حکومت کا امتحان لوگوں کے فیصلے کو قبول کرنے سے ہوتا ہے۔ ایک فعال جمہوریت میں آپ کھیل کے اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔‘

نتن یاہو کو جون 2021 میں نفتالی بینیٹ اور سابق ٹی وی نیوز اینکر یائر لیپڈ کی سربراہی میں بائیں بازو، سنٹرلسٹس اور عرب جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے ہٹا دیا تھا لیکن انہیں اقتدار میں واپس آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

اپنی یکم نومبر کی انتخابی جیت کے بعد، نتن یاہو نے کٹر قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔

دونوں جماعتیں فلسطینیوں کے بارے میں اشتعال انگیز خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

اب وہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسی اور اسرائیلی پولیس کی ذمہ داری سنبھالیں گے جو 1967 سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے میں بھی کام کرتی ہے۔

سینیئر سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں نے فلسطینیوں کی طرح نئی حکومت کی پالیسیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی تھنک ٹینک اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر یوہانن پلیسنر نے کہا: ’یہ نتن یاہو کے ساتھیوں کے لیے خوابوں کی حکومت ہے اور ایک جانب کا خواب دوسری فریق کا ڈراؤنا خواب ہے۔ توقع ہے کہ یہ حکومت ملک کو بالکل نئے راستے پر لے جائے گی۔‘

تل ابیب اور کئی عرب ممالک کے درمیان سفارتکاری تعلقات کے معمار اسرائیل کے سابق انٹیلی جنس وزیر ایلی کوہن کو نتن یاہو نے وزیر خارجہ نامزد کیا تھا۔

حکومت کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی اکثریتی جماعتوں نے ایسے قوانین منظور کیے تھے جن کے تحت کٹر قدامت پسند شاس پارٹی کے ایک اہم حلیف آریہ دیری کو ٹیکس جرائم کے باوجود بطور وزیر کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

ان جماعتوں نے قومی سلامتی کے وزیر کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے بھی ووٹ دیا جس سے بین گویر کو پولیس پر اختیار حاصل ہو جائے گا۔

بین گویر جو یہ اختیار ایسے وقت دیا گیا جب اٹارنی جنرل گالے بہاراو مائارا نے  قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست سے دور رکھنے کے حوالے سے وارننگ دی تھی۔

پیر کو نتن یاہو کو ایک فون کال کے دوران مسلح افواج کے سربراہ ایویو کوہوی نے دائیں بازو کی جماعت کے رہنما سموترچ  کے لیے وزارت دفاع میں ایک اور وزارتی عہدہ کی تشکیل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جو مغربی کنارے میں شہری امور کے انتظام کی نگرانی کریں گے۔

امریکہ بھی پریشان

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے اتحادی امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی خبردار کیا کہ واشنگٹن آبادکاری کی توسیع کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرے گا۔

اس کے باوجود بدھ کو جاری پالیسی ترجیحات کے حوالے سے ایک بیان میں نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے کہا کہ حکومت توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل کرے گی۔

تقریباً پانچ لاکھ یہودی آباد کار جن میں نئے وزرا میں سموترچ اور بین گویر بھی شامل ہیں، ان یہودی بستیوں میں رہائش پذیر ہیں جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتن یاہو نے انتہائی دائیں بازو کے ساتھیوں کو اس قدر وسیع رعایتیں اس امید پر پیش کیں ہیں کہ شاید انہیں عدالتی استثنیٰ حاصل ہو جائے یا ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے ختم ہو جائیں۔

نتن یاہو پر رشوت خوری، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کا الزام ہے تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

(ترجمہ: عبدالقیوم شاہد)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا