چین روس تعلقات میں کمان کس کے ہاتھ میں ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ چین کو روس سے زیادہ مغرب کی ضرورت ہے اور روس کو چین کی ضرورت ہے، چین کو روس کی نہیں۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن 16 ستمبر 2022 کو سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ سے بات کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ٹونی بلیئر کے دور سے تعلق رکھنے والے برطانوی خارجہ پالیسی کے آرکائیوز کی ریلیز اس وقت کی یاد دہانی کرواتی ہے جب دنیا کو امید تھی کہ روس کے اس وقت کے نوجوان نئے رہنما ولادی میر پوتن اپنی قوم کو پورے دل سے جمہوریت پسند بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

سال 2001 میں ٹونی بلیئر نے دوسرے یورپی رہنماؤں اور واشنگٹن میں جارج ڈبلیو بش کی طرح روس کے ساتھ سفارتی طور پر بہت زیادہ توانائی خرچ کی۔

جارج بش نے اس وقت عوامی طور پر پوتن کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں نے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھا۔ میں نے انہیں بہت کھرا اور قابل بھروسہ پایا۔ میں نے ان کے اندر کے احساس کو جان لیا تھا۔‘

ادھر ٹونی بلیئر نے صدر پوتن کو چاندی کے کفلنک کا ایک سیٹ سالگرہ کے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔

لیکن اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ مغرب کے صلاح کار اس وقت بھی زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جب (یورپ اور امریکہ) ان سے پرامید تھے، اس وقت بھی روس مغربی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنٹس تعینات کر رہا تھا۔

اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ پوتن کی اصلاح پسندانہ جبلت اسی وقت سے حاوی تھی، جب انہیں مشرقی جرمنی کے سویت انٹیلی جنس ’کے جی بی‘ کے سٹیشن سے واپس بلایا گیا تھا۔

یہاں تک کہ 20 سال پہلے انہوں نے سوویت یونین کے زوال اور مشرقی یورپ میں اس پر انحصار کرنے والی ریاستوں کے بلاک کو تاریخی تناسب کے سانحے کے طور پر دیکھا اور اس وقت بھی انہیں یوکرین ایک دکھاوے کا ملک ہی لگتا تھا۔

ایسٹونیا کی طرح کے نقصان سے کہیں زیادہ 1990 میں یوکرین کی آزادی یو ایس ایس آر کے خاتمے کی علامت ہے۔ اگر یوکرین روس کے ساتھ اپنی شراکت داری برقرار رکھتا تو شاید یو ایس ایس آر ٹوٹنے سے بچ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور پوتن تب سے ہی اس حقیقت سے نالاں تھے اور جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، انہوں نے اسے پلٹنے کی کوشش کی۔

اس وقت ٹونی بلیئر اور جارج بش پوتن کی حقیقی فطرت کے بارے میں بے وقوف بنے رہے کیوں کہ بعد میں انہیں حقیقت سمجھ میں آئی۔

لیکن پوتن کے نئے دوست اور حلیف شی جن پنگ کے ساتھ ایسا نہیں ہے، جنہوں نے کل ہی ایک ویڈیو کانفرنس میں ان کے ساتھ بات چیت کی۔

جب صدر شی نے گذشتہ سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے سے قبل اعلان کیا تھا کہ ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی دوستی کی ’کوئی حد‘ نہیں ہے، تو شاید ان کے ذہن میں مغرب کے ساتھ تھرمونیوکلیئر جنگ کا خطرہ نہیں تھا، جو کرہ ارض کو تباہ کر دے گی۔ یہ چین اور صدر شی کو فراموشی میں لے جائے گی۔

اور نہ ہی حقیقت میں صدر شی نے اس بات کا تصور کیا کہ اب یوکرین میں ایک طویل جنگ جاری ہے، جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آرہا ہے، جو عالمی تجارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے اور اس وجہ سے ہی چین کی صنعتی برآمدات متاثر ہو رہی ہی۔) اور نہ ہی مسٹر پوتن نے اس کا تصور کیا تھا، جنہوں نے اپنی فتح کے بارے میں اسی اعتماد کا ظاہر کیا، جو انہوں نے میدان جنگ میں اپنی افواج کی تذلیل سے پہلے باقی دنیا کے سامنے کیا تھا۔)

اس رشتے میں یہ بہت واضح ہے کہ اب کمان کس کے ہاتھ میں ہے۔ چین دنیا میں روس کا واحد اہم اتحادی ہے اور سخت مغربی پابندیوں کے دور میں اپنی معاشی بقا کے لیے اس پر اور بھی زیادہ انحصار کر چکا ہے۔

چین جو اس وقت کرونا بحران کی گرفت میں ہے، کی معیشت مغرب کی جانب سے سرمایہ کاری ختم کرنے اور اس کی برآمدات پر پابندیاں لگانے سے پہلے بھی، روس کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

درحقیقت تنازع کے دوران روس کے ساتھ چین کی دوستی کی حدیں واضح تھیں اور کچھ کو عوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ چین مغربی پابندیوں کے خوف سے روس کو اس ناامیدی والی جنگ میں کوئی اہم فوجی سازوسامان فروخت نہیں کرے گا، جس میں تبدیلی کا بھی امکان نہیں ہے۔

بیجنگ کو شاید یوکرین کے مستقبل کی زیادہ پرواہ نہ ہو لیکن وہ بلاوجہ امریکہ کو اکسانا نہیں چاہے گا کیوں کہ یوکرین کا تنازع پہلے ہی چین کے لیے غیر مددگار ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان پر تیزی سے حملہ کرنے کے لیے یوکرین کی نظیر اور خلفشار دونوں کو استعمال کرنے کا اس کا خواب اس وقت تیزی سے دھندلا گیا جب روسی فوج ڈونیتسک کے مشرقی محاذ سے شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئی۔

جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسی علاقائی طاقتوں سمیت مغرب کے اتحاد اور لچک کے مظاہرے نے روس اور چین کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور خطے میں چینی توسیع پسندی کے متوازی خطرات اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے ذریعے طاقت کے حصول کے لیے اس کی عالمی رسائی کو اجاگر کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جرمنی نے اپنی سابقہ نیم امن پسندی کی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے اور جاپان اپنے دفاعی پروگراموں کو تیز کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی پیش رفت چینی مفادات کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔

یہاں تک کہ چین کی اقتصادی مدد، جس کا دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد جاری کیے گئے بیان میں پیش رفت کے ایک اہم شعبے کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے، کریملن کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔ مغربی توانائی کی منڈیوں کے نقصان کے ساتھ چین اب روس کی اہم برآمدی منڈی بن گیا ہے اور صدر شی نے درحقیقت اپنا جوتا روسی معیشت کی ونڈ پائپ پر رکھ دیا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ روس آسانی سے چینی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر سکتا اور بی آر آئی نیو۔کالونیل کی طرح کا قبضہ ہے۔

یہاں تک کہ ماؤ کے زمانے میں اور ایک مشترکہ مارکسسٹ لیننسٹ نظریے کے تحت، جب چین اور روس عالمی کمیونسٹ انقلاب کی قیادت کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کی دشمنی کبھی کبھار سرحدی تشدد میں بدل سکتی تھی، امریکہ سے ان کی باہمی دوری نے انہیں قریب لانے کا سامان پیدا کیا لیکن واضح طور پر دیوار ابھی بھی موجود ہے اور تعلقات یک طرفہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چین کو روس سے زیادہ مغرب کی ضرورت ہے اور روس کو چین کی ضرورت ہے، چین کو روس کی نہیں۔

ان رہنماؤں کی اگلی ملاقات کے وقت تک جب صدر شی ماسکو کا سرکاری دورہ کریں گے، چین ممکنہ طور پر یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں استحکام دیکھنے کو ترجیح دے گا۔

اس دوران یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطلب ولادی میر پوتن کی معزولی اور روسی دارالحکومت میں تقریب کے لیے ایک نئے میزبان کو دیکھنا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ چین کے مفاد میں ہوتا تو صدر شی اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کر لیتے کیوں کہ بہترین دوستی کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر