بالآخر تین برس بعد چین نے اتوار کو کرونا کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے ایک نرم پالیسی اختیار کی ہے، جس کے بعد شہریوں کا نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہو چکا ہے۔
یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ چین پچھلے تین سالوں سے بیرونِ دنیا کے لیے بند پڑا تھا۔ چین جانا ناممکن ہو چکا تھا۔ چین سے نکلنا بھی آسان نہیں تھا۔ اتوار کو چین نے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں جس کے بعد دنیا بھر سے چینی اپنے خاندانوں سے ملنے کے لیے ملک واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
چین اور کرونا کی بات ہو تو فوراً چینیوں کو اس وبا کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو چینیوں سے زیادہ کرونا کی قیمت کسی نے ادا نہیں کی۔
چینی عوام پچھلے تین سالوں سے ایک محدود زندگی گزار رہے تھے۔ بہت سے چینی اپنے آبائی گھر نہیں جا سکتے تھے۔ ان کے لیے بیرونِ ملک سفر خواب بن چکا تھا۔ پی سی آر ٹیسٹ کی پابندی الگ موجود تھی۔ ہر جگہ انہیں ہیلتھ کوڈ دکھانا پڑتا تھا۔ حکومت کبھی بھی کسی بھی علاقے میں لاک ڈاؤن نافذ کر سکتی تھی۔
ان تین برسوں میں بہت دفعہ ایسے لگا جیسے حالات نارمل ہو گئے ہوں لیکن پھر اچانک نئے قوانین لاگو ہو جاتے تھے۔ چینیوں نے اس بے یقینی کی کیفیت میں خود کو مزید محدود کر لیا تھا۔
بہت سے بیرونِ ملک مقیم چینی اپنے خاندانوں سے ملنے ملک واپس نہیں آ سکتے تھے۔
اتوار کو نافذ ہونے والی نرم پالیسی کے بعد چینی بغیر کسی خوف کے اپنے خاندان والوں سے ملنے چین واپس آ سکتے ہیں۔
اتوار سے چین کی سرحدی بندرگاہیں بھی کھل چکی ہیں۔ چینی کاروبار یا تفریح کے لیے ملک سے باہر بھی جا سکتے ہیں۔
چین کے اندر قرنطینہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ چینیوں کو ہر دوسرے دن پی سی آر ٹیسٹ بھی نہیں کروانا پڑے گا اور نہ ہی کسی عوامی جگہ پر اپنا ہیلتھ کوڈ دکھانا پڑے گا۔
چین نے کرونا کی عالمی وبا کو وبائی امراض کی کلاس بی میں شمار کیا تھا۔
چین وبائی امراض کو ان کے خطرات کے حوالے سے تین کلاسوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کلاس اے میں شامل امراض خطرناک ترین امراض تصور کیے جاتے ہیں۔
پہلے پہل چین نے کرونا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئےاسے کلاس اے میں شامل کیا تھا، جس کے بعد ہم نے چین کو سخت ترین پالیسیاں نافذ کرتے ہوئے دیکھا۔
چین نے اتوار سے کرونا کو دوبارہ کلاس بی میں شامل کر لیا ہے۔ اس کلاس میں کرونا کے علاوہ سارس، ایڈز اور تپ دق کے امراض شامل ہیں جبکہ کلاس اے میں طاعون اور ہیضے کے امراض شامل ہیں۔
کرونا کی کلاس بی کے امراض میں شمار بندی کی وجہ سے چین کا واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹنا ممکن ہوا ہے۔
چینی حکومت نے کرونا کے خلاف اپنی نئی پالیسی نئے قمری سال کے جشن سے پہلے متعارف کروائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے قمری سال کی وجہ سے ہونے والے سفر چین میں کرونا کے کیسوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ چین اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کافی کام کر رہا ہے۔ خاص طور پر اپنے دیہی علاقوں میں کرونا کلینکس کھول رہا ہے اور زیادہ خطرے والے مریضوں کو بڑے شہروں میں موجود بہتر ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے گرین چینل بھی بنا رہا ہے۔
چین کی اس نئی پالیسی کے بعد یہاں آنے والوں کو قرنطینہ نہیں کرنا ہوگا۔ انہیں 48 گھنٹے پہلے کروایا گیا منفی پی سی آر ٹیسٹ دکھانا ہو گا، جس کے بعد وہ چین میں نقل و حرکت کے لیے آزاد ہوں گے۔
سیاحوں کو چین آنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔ چین نے فی الحال ان کے لیے کوئی پالیسی متعارف نہیں کروائی ہے۔ غیر ملکی صرف کاروبار یا چین میں مقیم اپنے خاندان کے کسی فرد سے ملنے کے لیے چین آ سکتے ہیں۔
چین شاید اب بھی اپنی جارحانہ پالیسی پر قائم رہتا، تاہم پچھلے برس نومبر میں سنکیانگ کی ایک بلند و بالا عمارت میں آگ لگنے کی وجہ سے ہونے والی دس اموات نے ملک بھر میں ہلچل مچا دی تھی۔
حکومت نے ان اموات کو ایک حادثہ قرار دیا تھا، تاہم بہت سے چینیوں کا خیال تھا کہ وہ اموات کرونا پابندیوں کے باعث ہوئی تھیں۔ اگر کرونا پابندیاں عائد نہ ہوتیں تو وہ لوگ اس عمارت سے باہر جا سکتے تھے۔
اس کے بعد چین میں تاریخی مظاہرے ہوئے۔ چینیوں نے اپنے ہاتھ میں سفید کاغذ پکڑ کر کرونا پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ جواباً حکومت نے ان پابندیوں کو کافی حد تک ختم کر دیا تھا۔ رہی سہی کسر اس پالیسی نے پوری کر دی۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے یہ پالیسی اپنی 90 فیصد آبادی کو ویکسین لگوانے کے بعد متعارف کروائی ہے۔ وجہ جو بھی ہو چین کھل چکا ہے، یہ نہ صرف چینیوں بلکہ پوری دنیا کے لیے اچھی خبر ہے۔