بی جے پی کس طرح کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے؟

انڈیا کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جہاں تقریباً مسلمان وزرائے اعلیٰ ہی حکومت کرتے رہے ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام متنازع خطے جموں و کشمیر میں گلیوں کی صفائی کرنے والی آشا پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالیں گی اور انہیں کوئی شک نہیں کہ ان کا ووٹ کس کو ملے گا۔

آشا وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس خطے میں کئی دہائیوں سے جاری پالیسیوں کو ختم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے خاموشی سے ذلت کا سامنا کیا لیکن مودی جی نے ہماری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ صرف میں اور میرے بچے ہی نہیں بلکہ جموں و کشمیر میں ہماری کمیونٹی کی آنے والی نسلیں بھی بی جے پی کو ووٹ دیں گی۔‘

بی جے پی ہمالیہ کے اس خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جس کے حوالے سے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ اس کی سخت رقابت ہے اور دہلی کے زیر انتظام اس خطے پر تقریباً مسلمان وزرائے اعلیٰ ہی حکومت کرتے رہے ہیں۔

بی جے پی کو امید ہے کہ ووٹر لسٹوں میں دس لاکھ سے زیادہ ہندو ووٹرز کے اضافے، نئی انتخابی حد بندی، علاقائی اسمبلی میں مزید سات نشستوں کے اضافے اور نو پسماندہ گروپوں کی حمایت سے وہ جموں و کشمیر میں اکثریت حاصل کرکے پہلا ہندو وزیراعلیٰ لا سکتی ہے۔

بی جے پی کی اکثریت یہاں ایک بڑی تبدیلی ہوگی اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح مودی نے ایک ارب 40 کروڑ آبادی والے ملک کے ہر کونے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پرانی روایات کو روندا ہے۔

72 سالہ مودی 2024 میں تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے والے ہیں جنہوں نے خوشحالی اور سماجی ترقی کے وعدوں اور سخت گیر ہندو ایجنڈے کے ساتھ انڈین سیاست پر غلبہ حاصل کیا ہے۔

کشمیر کے متنازع خطے میں بی جے پی کی جیت عالمی سطح پر اس علاقے میں انڈیا کے دعوے کو مضبوط کر سکتی ہے۔

جموں و کشمیر میں بی جے پی کے صدر رویندر رائنا نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے زبردست اکثریت کے ساتھ اگلی حکومت بنانے کے لیے 50 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا عزم کیا ہے۔ اگلا وزیراعلیٰ ہماری پارٹی سے ہی ہوگا۔‘

جموں و کشمیر کے بہت سے مسلمانوں کے لیے بی جے پی کے استحقاق کو برقرار رکھنے والی پالیسیاں ایک خطرناک نئے مرحلے کی نمائندگی کرتی ہیں جسے وہ ہندو غلبے اور دباؤ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

’غیر قانونی قبضے‘

پاکستان اور انڈیا دونوں 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے کشمیر کے پورے خطے پر دعویٰ کرتے ہیں اور دونوں ممالک اس خطے پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔ چین بھی اس خطے پر اپنا جزوی دعویٰ کرتا ہے۔

پاکستان انڈیا پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے وہاں کے مسلمانوں کو دبانے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے روئٹرز کو ایک بیان میں بتایا: ’انڈیا کشمیریوں کو حق رائے دہی سے محروم کر کے اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی نظام کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘

انڈیا کا زیر انتظام جموں و کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں میں تقریباً 53 لاکھ کی آبادی میں سے 62 فیصد ہندو ہیں جب کہ وادی کشمیر کی آبادی 67 لاکھ ہے جہاں 97 فیصد مسلمان بستے ہیں۔

سروے حکام اور سینیئر بیوروکریٹس کے اندازوں کے مطابق 2021 میں اس خطے کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔

1954 سے اس خطے کو انڈیا کے آئین کے تحت خصوصی خودمختار حیثیت حاصل تھی تاہم 2019 میں سیاسی منظر نامے میں اس وقت تبدیلی آئی جب نئی دہلی میں بی جے پی کی زیرقیادت پارلیمنٹ نے اس آئینی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔

2020 سے بی جے پی نے جموں و کشمیر میں ہر فرد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دینے کا مطالبہ کیا ہے جو انہیں مقامی انتخابات میں ووٹ دینے، زرعی زمین اور مستقل مکان خریدنے کے ساتھ ساتھ ریاستی یونیورسٹیوں اور ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا اہل بناتا ہے۔

علاقائی حکومت اور حق رائے دہی سے محروم چھ گروہوں کی نمائندہ تنظیموں کے مطابق صرف دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو پہلی بار مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے اور ان میں سے 96 فیصد کا تعلق نچلی ہندو ذاتوں سے ہے۔

ان لوگوں میں سے چھ لاکھ 98 ہزار سے زیادہ افراد نے دسمبر تک ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کیے تھے۔

حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مزید سات ہزار 346 ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور فوجی افسران نے بھی یہ سرٹیفکیٹس حاصل کیے ہیں۔

روئٹرز نے 36 افراد سے بات کی جو اب خطے کی مکمل شہریت حاصل کر رہے ہیں۔ سبھی نے کہا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔

مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے جموں میں رہنے والی آشا کا تعلق بھی نچلی ذات سے ہے، جو گلیوں میں صفائی کا کام کرتی ہیں لیکن اب ان کے دو بچے پڑھ رہے ہیں جو ٹیچر بننا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’کوئی بھی کبھی نہیں سمجھے گا کہ جب ایک پڑھے لکھے بچے سے کہا جاتا ہے کہ اسے سڑکوں پر جھاڑو لگانا چاہیے تو وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔‘

خصوصی حیثیت

بی جے پی کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے پہلے مسلم رہنماؤں کے ساتھ سیکولر بائیں بازو کی جماعتیں مقامی اسمبلی کو کنٹرول کرتی تھیں اور جو جماعت بھی انڈیا پر حکومت کرتی تھی انہوں نے خطے کی سیاسی خودمختاری سے ہاتھ دھونے کی کبھی کوشش نہیں کی، لیکن بی جے پی نے یہاں کی اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور ایک لیفٹیننٹ گورنر کو ریاستی انتخابات تک کے لیے یہاں مقرر کیا گیا۔

ریاستی انتخابات اس موسم بہار کے اوائل میں متوقع ہیں۔

اس اقدام کے بعد مظاہروں کو روکنے کے لیے انڈین حکام نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا، انٹرنیٹ سروسز بند کر دیں، سکیورٹی سخت کر دی اور سینکڑوں مسلمانوں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو مہینوں تک گھروں میں نظر بند کر دیا۔

خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے اب تک کشمیر میں متعدد شہری، سکیورٹی اہلکار اور علیحدگی پسند نوجوان مارے جا چکے ہیں۔

بی جے پی کے مقاصد سے بچنے کے لیے بہت سے مسلمانوں نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے ابھی درخواستیں دینی ہیں حالانکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اگر ان کے انکار سے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو انہیں ایسا کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل غیر رپورٹ شدہ سرکاری ریکارڈ بتاتے ہیں کہ ستمبر تک صرف 53 لاکھ سے زیادہ سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے تھے۔

انڈین حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اس سکیم میں شامل نہیں ہوں گے حالانکہ وہ اب بھی مستقل رہائشی کارڈ استعمال کرکے مقامی انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا: ’یہ تمام قوانین جیسے ڈومیسائل اور حد بندی (انتخابی حدود میں تبدیلی) نے صرف ایک مقصد پورا کیا ہے اور وہ ہے ریاست کی مسلم اکثریت کو بدلنا۔‘

محبوبہ مفتی ماضی میں بی جے پی کے اتحاد کے ساتھ جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ رہی ہیں، جنہیں 2019 میں بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا تھا۔

آؤٹ ریچ مہم

بی جے پی رہنما رویندر رائنا نے کہا کہ مودی کی پالیسیوں نے ان ہزاروں لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو ختم کر دیا ہے جو کئی دہائیوں سے خطے میں رہ رہے تھے اور کچھ خاندان صدیوں سے شہری حقوق کے بغیر یہاں مقیم تھے۔

بی جے پی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

جموں و کشمیر میں 90 میں سے نو سیٹیں اب پہلی بار پسماندہ کمیونٹیز کے لیے ریزرو ہیں اور امکان ہے کہ وہ بی جے پی کی حمایت کریں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بی جے پی نے 2020 میں گھر گھر جا کر مہم بھی شروع کی جس میں سینکڑوں عہدیداروں کو شامل کیا گیا تاکہ ان لوگوں کی شناخت کی جاسکے جو ڈومیسائل سرٹیفکیٹس سے فائدہ اٹھائیں گے اور ممکنہ طور پر بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔

محمد اقبال ان میں سے ایک تھے۔ سری نگر کے قریب پلوامہ علاقے میں تحصیلدار یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ اور ٹیکس کلکٹر نے پہاڑی علاقوں میں اجتماعات منعقد کیے اور لوگوں کے ڈومیسائل حاصل کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے بھی اہتمام کیا۔

یہاں تک کہ کرونا کی وبا کے دوران بھی یہ کام نہیں رکا۔ یہاں الگ خیمے لگائے گئے تھے تاکہ لوگ سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے سکیں جب کہ لاک ڈاؤن پابندیاں اور سماجی دوری کے قوانین موجود تھے۔ اب یہ عمل بڑی حد تک آن لائن ہو گیا ہے۔

اقبال نے کہا: ’ہمیں حکومت کی طرف سے براہ راست ہدایت ہے کہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجرا تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ دسمبر تک ان کے علاقے کے چھ لاکھ لوگوں میں سے تقریباً 70 فیصد نے سرٹیفکیٹ حاصل کر لیے تھے حالانکہ اس سے صرف ایک اقلیت کو نئے حقوق ملیں گے۔

بی جے پی نے بھی حکومتی پینل کی طرف سے حد بندی کی دوبارہ تشکیل اور اسمبلی نشستوں کی تقسیم کی بدولت اپنا ہاتھ مضبوط کیا ہے۔

نئے ڈھانچے کے تحت ہندو اکثریتی جموں کو مزید چھ نشستیں ملیں گی جس سے اس کی نمائندگی 43 ہو جائے گی جب کہ مسلم اکثریتی کشمیر میں صرف ایک نشست ہی ملے گی۔

آشا جیسے پسماندہ گروپ اور مغربی پاکستان کے پناہ گزین، جو تقسیم کے بعد جموں و کشمیر میں آباد ہوئے، ان لوگوں میں شامل ہیں جو پہلی بار مکمل شہریت حاصل کریں گے۔

صرف پناہ گزین کمیونٹی کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔

مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کی نمائندگی کرنے والی ایسوسی ایشن کے صدر لابھرام گاندھی نے کہا: ’اب ہم اپنا ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور آخر کار تمام بنیادی حقوق حاصل کر لیں گے۔ ہم اسے حقیقت بنانے پر مودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا