کشمیر میں صورتِ حال واقعی بہتر ہو گئی ہے؟

کشمیری ایکٹیوسٹ کہتے ہیں کہ اگر وادی میں واقعی امن قائم ہو گیا ہے تو چار لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟

21 نومبر 2022 کو ایک سکیورٹی اہلکار سری نگر میں شہریوں کے شناختی کاغذات چیک کر رہا ہے (اے ایف پی)

ابھی انڈیا کی حکومت کے اس بیان پر تبصرہ ہی ہو رہا تھا کہ ’جموں و کشمیر میں امن و عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور مسلح بندوق برداروں کی تعداد دو درجن سے بھی کم رہ گئی ہے، کہ پہلے جموں میں ایک ٹرک میں اسلحہ کی بھاری مقدار پکڑی گئی اور پھر راجوری میں چھ ہندوؤں کو ہلاک کرنے کی خبرنے سب کو ہلا کے رکھ دیا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

ان خبروں کا صرف سرکاری بیانیہ سامنے آتا ہے کہ غیر جانبدار رپورٹنگ پر فی الحال سخت بندشیں عائد ہیں۔

ایک دن پولیس کا بیان آتا ہے کہ شمالی کشمیر میں بندوق برداروں کا صفایا کرنے کے بعد اب جنوبی کشمیرپر توجہ مرکوز کر دی گئی ہے تو اگلے ہی روز شمالی کشمیر میں حملے کی خبر شہ سرخی بن جاتی ہے۔

کئی ہفتے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ جموں میں مسلح تحریک کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا ہے، چند  روز پہلے جموں کے مرکز میں، پھر جموں سے منسلک ضلع راجوری کے ایک گاوں میں آتش گیر مادہ دستیاب اور چھ ہندووں کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آیا۔

کشمیری سوشل ایکٹوسٹ عمر بٹ کہتے ہیں کہ ’پولیس کے مطابق وادی میں امن عامہ بہتر ہو گیا ہے۔ نہ کوئی جلسہ ہے، نہ کوئی احتجاج ہے اور نہ اب انٹرنیٹ پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ چار لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟

’تین سال سے مقفل جامع مسجد کو کیوں نہیں کھولا جاتا؟ میڈیا پر عوام کو درپیش مشکلات پر رپورٹنگ پر پابندی کیوں ہے؟ کیا سرکاری ہینڈ آوٹس کو میڈیا پر چلانے کو بہتر حالات کہا جاسکتا ہے؟ جھوٹ کی اس کہانی سے بھلے ہی انڈیا کی ایک ارب آبادی کو بہلایا جا سکتا ہے مگر ہمیں نہیں۔‘

ایک جانب جموں و کشمیر  کے عوامی حلقوں میں قبرستان جیسی خاموشی پائی جاتی ہے دوسری جانب یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ چند ہفتوں سے انڈیا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے باوجود انڈیا کی جانب سے یہ الزامات اب بار بار لگائے جا رہے ہیں کہ سرحد پار سے نہ صرف بھاری مقدار میں وادی میں ہتھیار بھیجے جا رہے ہیں بلکہ منشیات کی ترسیل بھی جاری ہے جو بعض مرتبہ پنجاب کے راستے سے وادی پہنچائی جاتی ہے۔

انڈین اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ہتھیاریا منشیات کی ترسیل کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جس کی بقول مقامی سرکار حالیہ مثال اوڑی کی ہے جہاں سیکورٹی فورسز نے خاصی مقدار میں اسلحہ پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان نے ان الزامات کا جواب تو نہیں دیا، بلکہ اس نے گذشتہ کئی برسوں سے کشمیر پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ البتہ نئے فوجی سربراہ جنرل آصف منیر نے عہدہ سنبھالتے ہی لائن آف کنٹرول کا دورہ کرنے کے بعد انڈیا کو ضرور یہ پیغام دیا کہ کشمیر پر وہ خاموش ضرور تھے، اسے بھولے نہیں۔

فوجی ترجمان کے مطابق جنرل منیر نے اپنی قوم کو یقین دلایا کہ ’دشمن (انڈیا) نے اگر کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اُسے سبق سکھایا جائے گا۔‘

سابق فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کے آخری تین سال میں دونوں ملکوں نے سخت بیانات سے گریز کیا ہے۔ خیال ہے کہ جنرل باجوہ نے پس پردہ انڈیا کے قومی سلامتی مشیر سے ملاقات کے بعد کشمیر پالیسی میں تبدیلی آئی تھی البتہ اس کی پاکستان سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

نئے فوجی سربراہ جنرل منیر  نے شاید خاموشی کی اس پالیسی کو توڑ کر عندیہ دیا ہے کہ کشمیر مسئلہ فوج کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس کی تصدیق ریٹایرڈ میجر  عادل راجہ نے بھی کی جو کہتے ہیں کہ ’فوج کامورال بڑھانے کے ساتھ ساتھ کشمیر مسلۂ کو اُجاگر کرنا نئے چیف کی فہرست میں اولین حثیت رکھتے ہیں۔‘

پاکستان میں بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ’بلاول بھٹو کے اقوام متحدہ میں انڈیا کے وزیراعظم کو ’گجرات کا قصائی‘ والے بیان کے پیچھے بھی نئی فوجی کمان کی نئی پالیسی کارفرما ہے ورنہ بلاول بھٹواس طرح کا بیان دینے کی کبھی جرت نہیں کر سکتے۔‘

اسی تناظر میں انڈیا کے وزیر خارجہ سے ایک صحافی نے ایس جے شنکر سے پوچھا کہ آپ کے بیان میں پاکستان دہشت گردی کا مرکز میں لفظ ’مرکز‘ سفارتی نہیں لگتا توانہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے لیے ’دہشت گردی کے مرکز‘ سے بھی سخت الفاظ استعمال کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’سفارت کاری کا مطلب سچ کو جھٹلانا نہیں ہوتا۔‘

یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے دوبارہ شدید بیانات کی بوچھاڑ شروع ہو چکی ہے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں مسلح حملوں میں تیزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔

دوسری طرف مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے بارے میں کافی ابہام پایا جاتا ہے کہ یہ کون کرواتا ہے اور کس کے فائدے کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر