سابق وزیر کو پھانسی: برطانیہ کی ایرانی اٹارنی جنرل پر پابندیاں

برطانیہ نےایرانی نژاد برطانوی رضا اکبری کو پھانسی دینے پر ایران کے اٹارنی جنرل پر پابندیاں عائد کر دیں۔

سابق نائب وزیر دفاع علی رضا اکبری کی انٹرویو کے دوران لی گئی ایک تصویر (اے ایف پی/خبر آن لائن)

برطانیہ نے ایک ایرانی نژاد برطانوی شہری کو پھانسی دینے پر ایران کے اٹارنی جنرل پر پابندیاں عائد کر دیں۔

ایران نے ہفتے کو سابق نائب وزیر دفاع اور دوہری شہریت رکھنے والے برطانوی شہری علی رضا اکبری کو برطانیہ کی انٹیلی جنس کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دی۔

ایرانی عدالتی خبر رساں ایجنسی ’میزان آن لائن‘ نے رپورٹ کیا کہ علی رضا اکبری کو ’زمین پر فساد اور انٹیلی جنس کے ذریعے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے جرم‘ میں موت کی سزا سنائے جانے کے بعد پھانسی دی گئی۔

برطانوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری پر پابندیاں عائد کر دے گا۔

برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے ایک ٹویٹ میں کہا برطانیہ نے ایران کے اٹارنی جنرل پر پابندی لگا دی ہے۔

’آج ان پر لگائی گئی پابندی سے علی رضا اکبری کو دی گئی پھانسی پر ہماری ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایران کی طرف سے موت کی سزا میں اٹارنی جنرل کا کردار مرکزی ہے۔

’ہم ایرانی حکومت کی جانب انسانی حقوق کی ان خوف ناک خلاف ورزیوں پر اسے جواب دہ سمجھتے ہیں۔‘

برطانیہ نے اس سے قبل تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس سزائے موت کو روکے۔

برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا اس فیصلے کے پیچھے ’سیاسی مقاصد‘ کارفرما ہیں۔

جمعرات کو ایرانی سرکاری میڈیا نے بتایا تھا کہ 61 سالہ علی رضا اکبری ایران کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔

وہ بطور ’نائب وزیر دفاع برائے خارجہ امور‘ اور ’سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹریٹ‘ میں ایک عہدے پر بھی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔

علی رضا اکبری ’بحریہ کے کمانڈر کے مشیر‘ کے ساتھ ساتھ ’وزارت دفاع کے تحقیقی مرکز میں ایک ڈویژن کے سربراہ‘ بھی رہ چکے ہیں۔

ایرانی میڈیا کی جانب سے نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں علی رضا اکبری بظاہر برطانیہ کے ساتھ اپنے رابطوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ نے ان سے ایران کے اہم ترین جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ محسن فخر زادہ کو نومبر 2020 میں ایک پراسرار حملے میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا الزام تہران نے اسرائیل پر لگایا تھا۔

سرکاری میڈیا نے بتایا کہ علی رضا اکبری 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ کے ایک تجربہ کار عہدیدار تھے جن کو مارچ 2019 اور مارچ 2020 کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔

میزان آن لائن نے رواں ہفتے ایران کی انٹیلی جنس وزارت کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے تھا کہ علی رضا اکبری ’اپنے عہدے کی اہمیت‘ کی وجہ سے برطانیہ کی خفیہ انٹیلی جنس سروس ایم آئی 6 کے لیے ’اہم جاسوس‘ بن گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فروری 2019 میں سرکاری اخبار نے علی رضا اکبری کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں ان کی شناخت ایک ’سابق نائب وزیر دفاع‘ کے طور پر کی گئی تھی۔

میزان نے مزید بتایا کہ دسمبر کے شروع میں ایران نے اسرائیلی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں چار مزید افراد کو پھانسی دی تھی۔

علی رضا اکبری کو ایک ایسے وقت پھانسی دی گئی ہے جب 16 ستمبر کو 22 سالہ ایرانی نوجوان خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ہونے والے مظاہروں نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

انہیں خواتین کے لیے سخت لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایران کی عدلیہ نے تصدیق کی ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں 18 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔

ان میں سے چار افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا