اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد ترقیاتی منصوبوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟

اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صوبے میں جاری ترقیاتی کاموں کا کیا بنتا ہے، کیا وہ جاری رہتے ہیں، یا وہ بھی تحلیل کے ساتھ ہی التوا کا شکار ہو جاتے ہیں؟

نئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری یا اس کے لیے کسی قسم کا فنڈ جاری کرنے کا قانون الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 میں درج ہے (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا عمل مکمل ہو گیا جس کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نام کا انتخاب کیا جائے گا، جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے بھی ‏وزیراعلیٰ محمود خان کی جانب سے ایڈوائس پرمشتمل سمری گورنر کو ارسال کردی گئی ہے۔

اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کرنا ایک جمہوری عمل ہے، تاہم ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی صوبائی حکومت میں برسر اقتدار سیاسی جماعت نے خود ہی اسمبلیاں تحلیل کی ہوں۔

اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اسمبلی تحلیل تو ہوتی ہے، لیکن صوبے میں جاری ترقیاتی کاموں کا کیا بنتا ہے اور کیا وہ جاری رہتے ہیں، یا وہ بھی تحلیل کے ساتھ ہی التوا کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے متعلقہ حکام سے بات کی، تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کیا اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کا کسی بھی محکمے میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں اور کیا نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں؟

کرامت شاہ خیبر پختونخوا کے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ شعبے میں بطور ڈویژنل مانیٹرنگ آفیسر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب بھی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے، چاہے وقت سے پہلے ہو یا پانچ سال بعد، نئے انتخابات کروانے کے لیے نئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری بہت کم ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’نئے منصوبوں کی منظوری پر پابندی الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد لگائی جاتی ہے، تاکہ انتخابی عمل متاثر نہ ہو، جبکہ جاری منصوبے جاری ہی رہتے ہیں اور قانونی طور پر جاری ترقیاتی منصوبوں پر اسمبلیوں کی تحلیل کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پالیسی کسی بھی شعبے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ہے، لیکن جاری ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بننے والی نگران حکومت کی جانب سے ملتی ہے۔

یاد رہے کہ کسی بھی شعبے میں دو قسم کے منصوبے ہوتے ہیں، ایک جاری ترقیاتی منصوبے اور دوسرے وہ ہوتے ہیں، جس کے لیے بجٹ میں کچھ پیسے رکھے گئے ہوں لیکن متعلقہ فورم یعنی صوبائی ورکنگ ڈیویلپمنٹ پارٹی (صوبائی حکومت کی وہ کمیٹی جو کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی منظوری دیتی ہے) کی جانب سے منظوری نہ ملی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاری منصوبے وہی ہوتے ہیں، جو پہلے سے منظور ہوں اور ان پر کام پہلے سے جاری ہو لیکن اسمبلی کی تحلیل تک وہ مںصوبہ مکمل نہ ہوا ہو۔

 ایسے منصوبے بھی ہوتے ہیں جو کئی سالوں پر محیط ہوتے ہیں اور ان پر کام چل رہا ہوتا ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی یا اسمبلیوں کی تحلیل کی وجہ سے ان منصوبوں پر اثر نہیں پڑتا۔

وہ منصوبے جو جاری نہیں ہوئے ہیں، ان کی مثال تیمرگرہ میڈیکل کالج ہے۔ گذشتہ تقریباً دس سالوں سے اس منصوبے کے لیے ہر سال بجٹ میں ٹوکن رقم مختص کی جاتی ہے، لیکن ابھی تک اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہوا ہے۔

نئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری یا اس کے لیے کسی قسم کا فنڈ جاری کرنے کا قانون الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 میں درج ہے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ181 کے مطابق کوئی بھی حکومت انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد کسی قسم کے ترقیاتی منصوبے کا اعلان نہیں کرے گی۔

اس دفعہ کے مطابق: ’کسی بھی منتخب حکومت یا منتخب نمائندے کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد کسی ترقیاتی منصوبے کی منظوری دے یا اس کے لیے کوئی فنڈ جاری کرے۔‘  

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کا نگران حکومت کے ساتھ کوئی تعلق تو نہیں ہوتا اور نہ ہی اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی قانونی پابندی ہے۔

تاہم سہیل احمد نے بتایا: ’ترقیاتی منصوبوں کی منظوری یا اس کے لیے فنڈ جاری کرنے پر پابندی الیکشن کمیشن کی جانب سے اس وقت لگتی ہے، جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے منصوبوں کی منظوری سے نمائندے الیکشن مہم کو سبوتاژ نہ کر دے۔‘

نگران حکومت کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہے؟

پاکستانی قانون کے مطابق نگران حکومت آنے کا واحد مقصد ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کروانا ہے جبکہ دوسرا مقصد قانون کے مطابق ملک کی سرکاری مشینری کو اگلی حکومت آنے تک چلانا ہے۔

الیکشن ایکٹ کے مطابق نگران حکومت کے لیے غیر سیاسی اور غیر منتخب لوگوں کا چناؤ کیا جائے گا، جبکہ نگران حکومت کو کسی بھی ملک کے ساتھ کسی بڑے معاہدے پر دستخط کی اجازت نہیں ہو گی۔

اسی طرح نگران حکومت سرکاری محکموں میں ملازمین کی بھرتیاں اور ٹرانسفر بھی نہیں کر سکتی، تاہم ضرورت کے وقت مختصر دورانیے کے لیے بھرتیاں ہو سکتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان