پنجاب: حمزہ شہباز لندن میں نگران سیٹ اپ کیسے بنے گا؟

وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو بھیج دی گئی ہے لیکن عبوری وزیراعلیٰ کی نامزدگی قائد ایوان یعنی وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہی ممکن ہے۔

پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور لیگی رہنما حمزہ شہباز 16 اپریل 2022 کو لاہور میں صوبائی اسمبلی آتے ہوئے (اے ایف پی)

پنجاب میں وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کو موصول ہوچکی ہے۔ آئینی طور پر وہ دو دن میں اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہیں، دوسری صورت میں کل یعنی ہفتے (14 جنوری) کو خود بخود اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔

اس سیاسی بحران میں نگران سیٹ اپ بھی فوری بنتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ آئین کے مطابق عبوری وزیراعلیٰ کی نامزدگی قائد ایوان یعنی وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ممکن ہے۔

پنجاب میں وزارت اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر بھی حمزہ شہباز کو ہی بنایا گیا تھا، مگر وہ کئی ہفتوں سے لندن میں موجود ہیں، جس پر تنقید بھی ہوتی رہی کہ مسلم لیگ ن اپوزیشن لیڈر کے بغیر پنجاب میں سیاسی معرکہ لڑ رہی ہے۔

لیگی رہنما عطا تارڑ نے ایک بیان میں کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے انہیں پیغام بھجوایا ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمع کروا دیں تاکہ اسمبلی تحلیل نہ کرنی پڑے لیکن انہوں نے نہیں کروائی۔

صورتحال واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب میں انتخابات کے علاوہ فل الحال کوئی راستہ نہیں ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس معاملے پر خاموش ہے، جس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حالیہ دنوں میں پنجاب کے سیاسی بحران کے حل میں کردار ادا کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کیوں خاموش رہی؟

اس حوالے سے سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’آصف علی زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن نے طے کیا تھا کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا کر بنایا جائے گا، مگر اس معاملے پر عمل درآمد نہیں ہوا جس سے آصف زرداری اور چوہدری شجاعت نے کردار ادا نہیں کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیر داخلہ اور سینیئر لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے پارٹی قیادت کو اندھیرے میں رکھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں اور وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کا گڑھ پنجاب تھا، جہاں غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان بھی ن لیگ کو ہوا ہے۔‘

ایسی صورت حال میں نگران حکومت بننے کا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بقول سلمان غنی: ’اگر خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کردی جاتی ہے اور کراچی میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے گئے ہیں، لہذا حالات عام انتخابات کی طرف جاتے ہوئے دکھائے دے رہے ہیں کیونکہ اب سیاسی بحران وفاقی حکمران اتحاد کے قابو میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘

عبوری حکومت کیسے بن سکتی ہے؟

موجودہ حالات میں عبوری حکومت بنانے کا معاملہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان افہام وتفہیم سے طے ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ دونوں طرف سے کسی بھی معاملے پر سیاسی بات چیت کے دروازے تاحال بند ہیں۔

ایسی صورت میں وزیراعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر میں نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے مشاورت کرنے کا عمل شروع ہونا مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ گورنر کو سمری بھجوانے کے بعد جیسے ہی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے، وزیر اعلیٰ کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کو نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے خط لکھا جائے گا۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جس طرح سیاسی اختلاف پایا جاتا ہے، سلمان غنی کے بقول: ’مشاورت سے عبوری حکومت کی تشکیل ممکن نہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے دیے گئے ناموں پر متفق نہیں ہوں گے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

’لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنما الیکشن کمیشن کے خلاف بیانات دیتے ہیں کیا وہ الیکشن کمیشن کے نامزد کردہ نگران وزیر اعلیٰ کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟‘

موجودہ سیاسی صورت حال میں وفاقی حکمران اتحاد کے قائدین نے بھی رابطے شروع کردیے ہیں اور اس صورت حال پر مشاورت کا آغاز ہوچکا ہے، لہذا چند دن میں صورت حال واضح ہوسکے گی کہ سیاسی بحران کیسے حل کیا جاتا ہے کیونکہ تحریک انصاف فوری عام انتخابات کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اب حکمران اتحاد کے پاس بھی انتخابات کے علاوہ کوئی قابل عمل حل نظر نہیں آرہا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کہہ چکے ہیں کہ ’اقتدار کے لیے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے معاشی بحران مزید گہرا کرنے کی سازش ہے۔‘

اس وقت ایک طرف تو ملک کو معاشی چیلنجز درپیش ہیں، وہیں آٹے کا بحران اور مہنگائی کا طوفان ہے، ان حالات میں انتخابات نہ حکومت میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے سازگار ہیں اور نہ ملکی خزانے کے لیے بہتر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست