بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتے کو بلوچستان پیس فورم کے زیر اہتمام ’ری امیجننگ پاکستان‘ کے موضوع پرایک قومی مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل سمیت دیگر سیاست دان اور سماجی شخصیات شریک ہوئیں۔
اس سیمینار میں سیاست دانوں، ماہرین معیشت، بیوروکریسی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے اور پاکستان کودرپیش مسائل پر بات کی۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں قومی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت صوبے کی چیدہ چیدہ شخصیات کو دعوت دی گئی تھی۔
سیمینار میں شریک رہنماؤں نے پاکستانی کی معیشت، سیاسی جماعتوں کے کردار، بلوچستان میں لاپتہ افراد، گوادر اور معاشی مسائل پر کھل کر بات کی۔
اس سیمینار کےحوالے سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ کوئی نئی سیاسی جماعت بنائی جا رہی ہے تاہم ایونٹ میں شریک رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد ایک غیر سیاسی فورم کے ذریعے ان مسائل پربات کرنا ہے جن کو سیاسی جماعتوں نے نظرانداز کر دیا ہے مزید یہ کہ یہ تسلسل پورے ملک میں جاری رکھا جائے گا۔
سیمینار میں دیگر اہم شخصیات کے ساتھ سابق وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، سابق وفاقی وزیرہمایوں عزیز کرد، خیبرپختوںخوا سے خواجہ محمد خان ہوتی، سابق سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، فرحت اللہ بابر، زمیندارایکشن کمیٹی کے رہنما، وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ںصراللہ بلوچ اور وکلا رہنماؤں نے شرکت کی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسمبلی میں اگر عوام کے مسائل پر بات ہو رہی ہوتی تو ہمیں سیمینار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ملکی معیشت تباہ ہو گئی اورسیاست بھی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں بلکہ عوام کے مصائب پر بات کرنا ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ’جو سیاسی سوچ بلوچستان میں ہے وہ کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔ لسٹیں بنانے کے بجائے عوامی خواہش سے اراکین اسمبلی کو منتخب ہونا چاہیے یہاں راتوں رات جماعتیں بنائی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ آئین کی ناکامی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم مسنگ پرسن کی بات کرتے ہیں جو شرمندگی کا باعث ہے۔‘
سابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ملکی معیشت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ہی پاکستان کو اچھا بنانا ہے باہر سے کوئی نہیں آئے گا۔ اس وقت پاکستان میں کافی معاشی دشواریاں ہیں۔ مشرف دور میں ہم پر تین ہزار ارب قرض تھا۔ آج ہم 50 ہزارارب روپے کے مقروض ہیں۔ ہم ایک ملک سے پیسے لے کر دوسرے کو دیتے ہیں۔ یعنی ٹوپیاں بدلتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قوم پرست ہونا کوئی بری بات نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ہمیں ہر ایک لیے یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں ایسا پاکستان بنانا ہے جس میں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے شکایتیں بیان کر دی ہیں۔ اب ہم نے اس کا حل ڈھونڈنا ہے۔ جو ہمارے مسئلے ہیں یہ نہ سوچیں کہ ان کا حل نہیں ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش بھی ان مسائل سے باہر نکلے ہیں۔‘
سیمینار سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے بھی خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اسلام کے نام پر اپنی چار ریاستیں پاکستان میں شامل کیں۔ ہم اس لیے اس ریاست میں شامل ہوئے کہ اس ملک میں ہماری عزت ہوگی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست قلات کے معاہدوں پرعمل درآمد نہیں ہوا۔‘
سابق وزیراعلیٰ نے نے کہا کہ ’جب ہم وفاق کی بات کرتے ہیں تو ایک طرف آزادی پسند بلوچ ہیں تو دوسری طرف فوج۔ ہم انڈیا کے نہیں بلوچ، پشتون سندھی اور غریب پنجابی کے ایجنٹ ہیں۔‘
سابق سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سیمینار کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی سیاست پانامہ اورتوشہ خانہ میں پھنس گئی ہے۔ آٹھ سال سے عوام کے مسائل کی کوئی بات نہیں کر رہا ہے جب کہ بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کا حل نہ نکالا گیا تو ملک کو نقصان ہوگا۔‘
مصطفیٰ نواز کھوکھرنے کہا ’مجھے جمہوری اور انسانی حقوق پر بات کرنے کا کہا گیا تھا لیکن یہاں پر نہ جمہوریت اور نہ انسانی حقوق ہیں۔ ملک میں جمہوریت اس دن ختم ہو گئی جب پہلا آمر آیا تھا اور ملک بنانے والوں کو غدار کہا گیا۔ ہمارے ہاں جب پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے اس وقت تک انڈیا میں تین انتخابات ہوچکے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ مگر سیاسی جماعتیں 12 منٹ میں آرمی چیف کی توسیع کے قانون سازی پراکٹھی ہو گئیں مگر وہ بلوچستان کے مسائل پر اکٹھے نہ ہو سکیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ’پاکستانیوں کی اکثریت ریاست سے لا تعلق ہو رہی ہے، یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر اس رشتے کو بحال کرنا ہے تو ہمیں آئین کی حرمت کو بحال کرنا ہو گا، اداروں اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہمیں پاکستان کو کسی طرح ری امیجن نہیں کرسکتے جب تک آئین کی پاسداری نہ ہو۔‘
نوجوان تجزیہ کار اور بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ ’بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس کی تشخیص کرنا ہو گا۔‘
رفیع اللہ کاکڑ نے کہا: ’قوموں کی ترقی کا فیصلہ اس ملک کا سیاسی ڈھانچہ کرتا ہے، ادارے فیصلہ کرتے ہیں کہ اختیار سازی کا طریقہ کار کیا ہو گا اور فیصلہ سازی کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ اگر ہمیں بلوچستان کو سمجھنا ہے تو ہمیں اختیار سازی کے ڈھانچے کو دیکھنا ہوگا کہ اس کو تبدیل کیسے کرسکتے ہیں۔‘
اس موقعے پر ’حق دو تحریک‘ کے رہنما حسین واڈیلہ نے کہا کہ ’کہا جاتا تھا کہ سی پیک کے منصوبے سے ترقی ۤآئے گی، ہم اس کے مخالف نہیں لیکن آج بھی گوادر میں پانی نہیں ہے۔ گوادر میں پر امن احتجاج کرنے والے دہشت گرد نہیں تھے، پرامن احتجاج کر رہے تھے، حق دو تحریک کا نعرہ شروع سے تھا کہ پرامن احتجاج، ہمارے مطالبات میں ٹرالرمافیا، منشیات اورغیرضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل تھا اور ہم نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ پاکستان میرا ملک تو بلوچستان میرا وطن ہے۔‘