کیا ایک سینیئر چیف سیلیکٹر ماڈرن کرکٹ کو سمجھ سکیں گے؟

ہارون رشید نے 80 کی دہائی میں کرکٹ کھیلی ہے اور 70 سال کی عمر میں ہارون رشید اس اہم ترین ذمہ داری کے لیے منتخب کیے گئے ہیں جو پاکستان کی نوجوان قومی کرکٹ ٹیم کو منتخب کرنا ہے۔ 

پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی نے سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید کو چیف سیلیکٹر مقرر کردیا ہے۔

ہارون رشید نے 80 کی دہائی میں کرکٹ کھیلی ہے اور 70 سال کی عمر میں ہارون رشید اس اہم ترین ذمہ داری کے لیے منتخب کیے گئے ہیں جو پاکستان کی نوجوان قومی کرکٹ ٹیم کو منتخب کرنا ہے۔ 

ماضی میں اس عہدے پر فائز رہنے والے سیلیکٹرز پر الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ ’ٹیم کو لیپ ٹاپ اور کرک انفو کے اعدادوشمار پر منتخب کرتے ہیں، وہ ڈومیسٹک کرکٹ پر نظر نہیں رکھتے اور نہ میچوں کو جا کر دیکھتے ہیں۔‘

اس الزام پر سابق سیلیکٹر نے جواب دیا تھا کہ ’میرے لیے ممکن نہیں کہ ہر میچ دیکھ سکوں اور جو مجھے فیڈبیک کوچز سے ملتا ہے اس بنیاد پر ٹیم منتخب کرتا ہوں۔‘

ہارون رشید عمر کے اس حصے میں ہیں جب چار روزہ میچوں کو دیکھنا اور تمام کھلاڑیوں پر نظر رکھنا مشکل کام ہوتا ہے، تو وہ ٹیم منتخب کریں گے۔

کرکٹ اب ایک نئی شکل اختیار کرچکی ہے اور جارحانہ کرکٹ ہی اصل جزو بن چکی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم جارحانہ کرکٹ کے ذریعے ہمیں کچھ دن قبل ہی شکست دے کر جا چکی ہے جبکہ ہماری ٹیم ابھی بھی اس دور کی کرکٹ کھیل رہی ہے جو متروک ہو چکا ہے۔ 

دوسرے ممالک کے کرکٹ نظام اور سیلیکٹرز کو دیکھا جائے تو پاکستان سے واضح فرق نظر آتا ہے۔ انگلینڈ کے سیلیکٹر لیوک رائٹ ہیں، نوجوان لیوک ابھی بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور ایک زبردست آل راؤنڈر مانے جاتے ہیں۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے سینکڑوں پرانے سینیئر کرکٹرز کو چھوڑ کر لیوک کو سلیکیٹر بنا کر دنیا کو پیغام دیا کہ کھلاڑیوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو حال کی کرکٹ کھیل چکا ہو۔

آسٹریلیا کے چیف سیلیکٹر جارج بیلی ہیں۔  40 سالہ بیلی جارحانہ آل راؤنڈر مانے جاتے ہیں اور ابھی بھی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اور موجودہ جدید کرکٹ سسٹم کے بانیوں میں سے ہیں۔

اسی طرح انڈیا کے چیتن شرما، نیوزی لینڈ کے ڈینیل ویٹوری اور ساؤتھ افریقہ کے پیٹرک مورونی بھی ہارون رشید کے مقابلہ میں کم عمر اور زیادہ تجربہ کے حامل ہیں۔

پاکستان ٹیم کے سیلیکٹرز ماضی میں انضمام الحق جیسے کرکٹرز بھی رہے ہیں جن کی کرکٹ ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ سابق سیلیکٹر محمد وسیم بھی کرکٹ سے کچھ عرصہ قبل ریٹائر ہوئے تھے اور کسی حد تک موجودہ کرکٹ کو سمجھتے تھے۔

ماڈرن کرکٹ کے تقاضے

گزشتہ برسوں میں کرکٹ کی بدلتی ہوئی شکل نے کرکٹ کو دلچسپ تو بنایا ہے لیکن کرکٹرز کو اپنی فٹنس برقرار رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب روایتی کرکٹ کا دور ختم ہوچکا ہے جب ایک بلے باز سارا دن کھیل کر پچاس رنز بنا کر خود کو کامیاب سمجھتا تھا۔ اب سٹرائیک ریٹ سب سے اہم ہے اور اس کے ساتھ فیلڈنگ میں پھرتی بہت ضروری ہے۔ اسی طرح بولنگ میں نت نئے تجربے اور حکمت عملی بھی ضروری ہے۔

ماڈرن کرکٹ کا سب سے اہم جزو خود پر بھروسہ اور دلیری ہے۔ اگر بلے باز اپنا سٹرائیک ریٹ نہ بڑھائے تو پوری ٹیم پر اثر پڑتا ہے۔

اب اگر 80 کی دہائی سے مختلف کرکٹ میں پرانے زمانے کے کھلاڑی سیلیکٹرز بن جائیں گے تو وہ ماڈرن کرکٹ کے مطابق کھلاڑی منتخب نہیں کرسکیں گے، کیونکہ ان کے مطابق کرکٹ کچھ اور ہے اور موجودہ کرکٹ کچھ اور!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہارون رشید بلاشبہ ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر رہے ہیں لیکن ان کا کیرئیر اتنا متاثرکن نہیں ہے۔ وہ موجودہ چیئرمین کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی میں بھی شامل ہیں۔ 

گزشتہ 30 سال سے وہ کسی نہ کسی صورت میں بورڈ سے منسلک رہے ہیں اور اب 70 سال کی عمر میں چیف سیلیکٹر بن گئے ہیں۔ 

اس سے پہلے بھی وہ چیف سیلیکٹر رہ چکے ہیں لیکن دو عہدے ایک وقت میں رکھنے کے باعث انہوں نے سیلیکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا اور ڈائریکٹر کرکٹ بن گئے تھے۔

ہارون رشید کی اس عہدے پر نامزدگی پر کرکٹ حلقوں نے سخت تنقید کی ہے کہ ’کیا پاکستان میں ایسے کوئی کرکٹرز موجود نہیں تھے جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہوں اور ماڈرن کرکٹ کو سمجھتے ہوں۔‘ شاہد آفریدی گزشتہ دنوں سیلکٹر بنے تھے لیکن وقت کی کمی کے باعث مستعفی ہوگئے تھے۔

تاہم  محمد حفیظ شعیب اختر  یونس خان مصباح الحق اور بہت سے ایسے سابق کرکٹرز موجود ہیں جنھوں نے زبردست کرکٹ کھیلی ہے اور ماڈرن کرکٹ کو سمجھتے ہیں۔

کرکٹ حلقوں کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کو کیا مجبوری لاحق ہے کہ وہ سینیئر افراد کو سیلیکٹرز بنائے اور ٹیم کا گراف مسلسل گرتا رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ