ڈالر، ڈار سے بھی نہ ڈرا

گذشتہ سال ستمبر میں جب اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ ذمہ داریاں سنبھالیں تو سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلیں کہ ڈالر ڈار سے ڈر گیا ہے لیکن یہ ’ڈر‘ عارضی ثابت ہوا۔

منی چینجرز 12 مارچ 2014 کو اسلام آباد میں پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کی گنتی کررہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں ڈالر مسلسل بے قابو ہے باوجود اس کے کہ ڈالر کو قابو کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔

رواں ہفتے ایکسچینج کمپنیوں کی طرف سے ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر پر مقرر حد (کیپ) ختم کیے جانے کے بعد امریکی کرنسی میں اضافہ ہوا اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ڈالر روپے کو بے قدر کر کے ہی چھوڑے گا۔

گذشتہ سال ستمبر میں جب اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ ذمہ داریاں سنبھالیں تو ڈالر کی قدر میں اس وقت معمولی سی کمی آئی جس پر سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلیں کہ ڈالر ڈار سے ڈر گیا ہے، لیکن یہ ’ڈر‘ عارضی ثابت ہوا۔

حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ دنیا کی طاقتور کرنسیوں میں سے ایک کی پاکستان سے افغانستان سمگلنگ کو بھی روکا جائے گا اور بلیک مارکیٹ کا مقابلہ بھی کیا جائے گا۔ لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہ ہو سکے۔

ڈالر نے دھاڑنا شروع کیا اور پھر اس کا راستہ کوئی حربہ نہ روک سکا اور جمعرات کو اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر، 250 روپے سے بھی زائد میں فروخت ہوا جو ملک کی تاریخ میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں سب سے زیادہ قدر ہے۔

اس وقت پاکستان میں ڈالر صرف مہنگا ہی نہیں نایاب بھی ہے، پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بھی لگ بھگ ساڑھے چار ارب ڈالر کے رہ گئے ہیں جس سے ملک کی معاشی خراب صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی سر توڑ کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ قرض کی آئندہ قسط جلد جاری کر دے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی حتمی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

حکومت نے اپنی مالی مشکلات سے دوست ممالک کو بھی آگاہ کیا جنہوں نے مدد اور سرمایہ کاری کے اعلانات بھی کیے لیکن اقتصادی مشکلات اس قدر ہیں کہ اصلاحات اور دیرپا اقدامات کے بغیر معیشت سنبھلتی نہیں نظر آتی۔

ڈالر شاید ڈرے تو نہیں لیکن مان سکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں ڈالر رہ سکے اور فرار کا راستہ اختیار نہ کرے، جب ڈالر مارکیٹ میں رہے گا تو رفتہ رفتہ دوست بن ہی جائے گا اس لیے ضروی ہے کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ امریکی کرنسی کے لیے بھی سازگار ماحول بنائیں اور پاکستانی روپے کی قدر بھی بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکیں۔

ڈالر کہاں کسی کی سنتا ہے ورنہ میں تو یہ ہی مشورہ دیتا کہ جب امریکہ پاکستان کا ساتھ چاہتا ہے تو امریکی و پاکستانی کرنسی بھی دوست بن جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ