’باز‘ نہ آنے والے پاکستانی صحافیو، چین سے عبرت پکڑو

پاکستان چین نہیں ہے جو بڑی بڑی کمپنیوں کو اپنے ملک سے نکال کر اپنی کمپنیاں کھڑی کر دے۔ ہم دوسروں پر انحصار کرتے ہیں اور دوسروں پر انحصار کرنے والے انہی دوسروں کے آگے تن کر کھڑے نہیں ہو سکتے۔

وزیرِاعظم عمران خان بھی اپنی کئی تقاریر میں چین کی ترقی کی مثال دے چکے ہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ چین کے ماڈل پر چلتے ہوئے یہاں انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کردیں؟ اس صورت میں کیا ہوگا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے(اے ایف پی)۔

اگر آپ کا کبھی چین جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو ایسے لگے گا آپ کسی جیل میں آگئے ہیں۔ وہاں گوگل، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب سب بند ہے۔ ان ایپس تک رسائی صرف وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کے ذریعے ہوتی ہے۔

چین نے ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مقابلے پر اپنا سوشل میڈیا بنایا ہوا ہے۔ وہاں فیس بک کی جگہ رین رین، ٹوئٹر کی جگہ ویبو اور یو ٹیوب کی جگہ یوکو ہے۔ یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز حکومت کی پالیسیوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔ حکومت ان کی سخت نگرانی کرتی ہے۔ اگر ان پلیٹ فارمز پر حکومت مخالف کوئی بھی پوسٹ شئیر کی جائے تو وہ فوراً ڈیلیٹ کر دی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چینی حکومت روزانہ کی بنیاد پر ویبو سے سینکڑوں کی تعداد میں پوسٹس ڈیلیٹ کرتی ہے۔

واٹس ایپ کی جگہ وہاں وی چیٹ استعمال ہوتا ہے۔ وی چیٹ کے بغیر چینیوں کی زندگی ادھوری ہے۔ ان کا وی چیٹ اکاؤنٹ ان کے بنک اکاؤنٹ سے منسلک ہوتا ہے۔ چاہے کسی ٹھیلے سے پھل خریدنا ہو، سوپر مارکیٹ سے موبائل فون یا ائیر لائن کی ٹکٹ لینا ہو یا کچھ بھی چاہیے بس ایک کوڈ سکین کرو، رقم لکھو، پن کوڈ ڈالو اور بس رقم ادا ہو گئی۔ وی چیٹ کی بھی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ادھر آپ نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف کسی کو بھی کوئی پیغام بھیجا ادھر پولیس آپ کے دروازے پر پہنچ جائے گی۔ چینیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

اتنی پابندیوں کے باوجود وہاں بھی سر اٹھتے ہیں، آوازیں بلند ہوتی ہیں اور اپنے جینے کا حق مانگا جاتا ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ کی دیواروں پر حکومت مخالف نعرے لکھے نظر آتے ہیں جو مقامی انتظامیہ مٹاتی رہتی ہے۔ اکثر ایسا کرنسی نوٹ بھی مل جاتا ہے جس پر چینی زبان میں کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے۔ کسی چینی سے اس کا ترجمہ پوچھیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتا بھاگ جاتا ہے۔ شنجیانگ کی طرف جائیں تو وہاں یہ معاملہ زیادہ زور پکڑے ہوئے ہے تب ہی وہاں کی انتطامیہ لوگوں کو ’تہذیب‘ سکھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ان کیمپس کو بھی خفیہ رکھا گیا۔ پھر بھی وہاں سے خبریں باہر نکل رہی ہیں۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اتنی پابندیاں اور پاپولر سوشل میڈیا کے متبادل بھی لوگوں کی سوچ مکمل طور پر قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انٹرنیٹ حال ہے اور یہ حال ہر لمحہ ترقی کر رہا ہے۔ اسے مکمل طور پر قابو کرنا ناممکن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں بھی سوشل میڈیا بلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافیوں کو ٹوئٹر کی طرف سے دھڑا دھڑ نوٹس موصول ہو رہے ہیں۔ کچھ کے اکاؤنٹس بھی ہیک کرنے کی کوشش کی گئی اور کچھ کو ان کے ادارے نے اپنے اکاونٹس بھی ڈیلیٹ کرنے کا کہا۔ جو صحافی پھر بھی باز نہ آئے ان کے خلاف ٹوئٹر پر کیمپینز چلائی گئیں۔ ان ڈیجیٹل ہتھکنڈوں کے جواب میں صحافی برادری نے بھی ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ بہت عرصے تک انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو فضول سمجھنے والوں نے اپنا اپنا یو ٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا لیا۔

اب کسی کا پروگرام اچانک رک جائے تو وہ فوراً اپنے یو ٹیوب چینل پر اپلوڈ کر دیتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی گاہے بگاہے عوام الناس اور صحافیوں کے لیے سوشل میڈیا استعمال بارے ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان بھی اپنی کئی تقاریر میں چین کی ترقی کی مثال دے چکے ہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ چین کے ماڈل پر چلتے ہوئے یہاں انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کر دیں؟ اس صورت میں کیا ہوگا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

یہی سوشل میڈیا ہے جس نے کئی لوگوں کو روزگار دیا ہے، کچھ لوگوں کو تو حکومت بھی دی ہے۔ اس سوشل میڈیا پر پابندی لگ گئی تو الیکشن جیتنے مشکل ہو جائیں گے۔ پابندی لگانے کی صورت میں حکومت کو ایسے ماہرین بھی ڈھوندنے ہوگے جو اس پابندی کو برقرار رکھنے اور سوشل میڈیا کی مکمل نگرانی کرنے میں مدد دیں۔ کیا ہم اتنی نوکریاں پیدا کر سکتے ہیں؟

کچھ دن قبل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ عامر عظیم باجوہ نے بھی حکومت کو چین اور متحدہ عرب امارات کی طرح سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے مطابق اسی طرح سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس بیان پر کافی لے دے ہوئی جس کے بعد پی ٹی اے نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میڈیا چئیرمین صاحب کے بیان کو غلط رخ دے رہا ہے۔

چئیرمین صاحب کے کہنے کا جو بھی مطلب ہو ایک بات تو واضح ہے، پاکستان میں سوشل میڈیا حکومتی مشینری کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے جس پر قابو پانے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن پاکستان چین نہیں ہے جو بڑی بڑی کمپنیوں کو اپنے ملک سے نکال کر اپنی کمپنیاں کھڑی کر دے۔ ہم دوسروں پر انحصار کرتے ہیں ور دوسروں پر انحصار کرنے والے انہی دوسروں کے آگے تن کر کھڑے نہیں ہو سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ