جبار خان کی عمر 85 سال ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے بڑے کاروباری گھرانے سے ہے۔ ملکی حالات کے باعث انھوں نے تین ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔
ایک کیمیکل کا یونٹ بیچ دیا ہے اور آبائی جائیداد بیچنے کا سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ سٹیٹ بینک اور چیمبر کے باہر احتجاج بھی کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ملک میں جو معاشی حالات آج ہیں وہ تقریباً 48 سال قبل پاکستان ٹوٹنے کے فورا بعد پیدا ہوئے تھے۔‘ وہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار اسحاق ڈار صاحب کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اسحاق ڈار کو کامیاب وزیر خزانہ اسی وقت مانیں گے جب میری فیکٹریاں دوبارہ چلیں گی اور میری آبائی جائدادیں بکنے سے بچیں گی۔‘
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر اور موجودہ ایکسپورٹر میاں نعیم جاوید صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسحاق ڈار ستمبر 2022 کے آخری ہفتے پاکستان پہنچے اور اکتوبر سے آئی ایم ایف پروگرام التوا کا شکار ہو گیا۔
انھوں نے آتے ہی آئی ایم ایف سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے۔ مبینہ طور پر ڈار صاحب نے سٹیٹ بینک کے ذریعے تین سو ملین ڈالر مارکیٹ میں پھینکے تاکہ ڈالر کا ریٹ نیچے لایا جا سکے۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
تین سو ملین ڈالرز بھی ضائع ہوئے اور ڈالرز کی گرے مارکیٹ بھی پیدا ہو گئی۔ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو ہر لحاظ سے نقصان ہوا ہے۔‘
’ڈالر کو کنٹرول کرنے کا مقصد مہنگائی میں اضافے کو روکنا تھا جبکہ وہ کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ کیونکہ جو اشیا درآمدات کے ذریعے نہیں آئیں وہ سمگلنگ کے ذریعے ملک میں پہنچ گئیں اور سمگلرز کا ریٹ حکومت کے ریٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔
آج مہنگائی 27 فیصد سے بڑھ گئی ہے جو کہ پچھلے 48 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
جب ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو سٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً آٹھ ارب ڈالر تھے جو کہ اب صرف تین ارب ایک کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں۔‘
’پچھلے مہینے برآمدات میں تقریباً 15 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ پچھلے چار ماہ میں ایکسپورٹرز نے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز غیر قانونی طریقے سے پاکستان منگوائے۔
’ترسیلات زر میں پچھلے چار ماہ میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہ ہوتی تو متحدہ عرب امارات کے بینکس کو تقریباً ایک ارب ڈالرز کا قرض نہ لوٹانا پڑتا۔
’چین کو بھی تقریباً 70 کروڑ ڈالرز کی ادائیگی نہ کرنا پڑتی۔ اسحاق ڈار صاحب نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بھی فوری طور پر نہیں بڑھایا۔
’گیس اور بجلی کے شعبوں کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے نرخوں میں اضافہ بھی نہیں کیا۔ پروگرام معطل رہا۔ اگر بتدریج اضافہ ہوتا رہتا تو عوام اسے کسی حد تک برداشت کر لیتی۔
’لیکن ایک ہی مرتبہ پیٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی اور مہنگائی بڑھنے سے عوام کی مشکلات زیادہ بڑھیں گی۔‘
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ صورت حال کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ لیکن یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، جس کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔
’اکتوبر سے جنوری تک جو سستی درآمدات ہوئی ہیں پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے تمام امپورٹ کلیر کرنے کا حکم دے دیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کو بیرون ملک منتقل کرنے سے روکنے پر پابندی لگا دی تو حالات کیا ہوں گے میں اور آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
’آئی ایم ایف سے تین تاریخ تک اعدادوشمار پر بات ہونی ہے۔ چار تاریخ سے پالیسی پر بات ہوگی اور نو تاریخ کو نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
’اگر آئی ایم ایف معاہدہ بحال نہیں ہوا تو پھر حالات کی خرابی کی مکمل ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہو گی۔‘
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملکی حالات اگست 2021 کے بعد سے گرنا شروع ہو گئے تھے۔ اگست 2021 میں ڈالرز ذخائر تقریباً 20 ارب ڈالرز تھے۔ فروری 2022 میں جب اس وقت کی حکومت نے پیٹرولیم سبسڈی دی تو یہ گر کر 12 ارب ڈالرز رہ گئے۔
’اپریل میں جب نئی حکومت آئی تو ذخائر تقریباً 10 ارب ڈالرز تھے۔ جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو یہ تقریباً آٹھ ارب ڈالرز تھے اور آج یہ صرف تین ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔
’معیشت میں ٹرینڈز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ذخائر کا ٹرینڈ نیچے کی طرف جاری ہے۔ لیکن زیادہ خرابی اسحاق ڈار صاحب کے آنے کے بعد ہوئی، جب ڈالر کو کنٹرول کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپنیڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ڈالر کو آزاد چھوڑا تو ساتھ میں امپورٹرز کو یہ بھی اجازت دے دی کہ وہ گرے مارکیٹ سے جتنا چاہے ڈالر خرید لیں۔
’ایسے فیصلوں سے ڈالر نے بے قابو تو ہونا ہے۔ ڈار صاحب افغانستان کے وزیر خزانہ سے بھی ڈالر سمگلنگ معاملے پر بات نہیں کر سکے۔
’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈالر ریٹ افغانستان کی وزارت خزانہ طے کرتی ہے۔ جب پاکستان میں ڈالر ریٹ افغانستان کے برابر ہو جاتا ہے تو افغانستان میں پھر دس روپے ڈالر بڑھا دیا جاتا ہے اور ڈالر پھر سے افغانستان سمگل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
’پچھلے حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن موجودہ حالات کی زیادہ ذمہ داری اسحاق ڈار پر عائد ہوتی ہے۔‘
لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جزل سیکرٹری عبدالوحید نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈار صاحب کے وزیر خزانہ بننے کے بعد ٹیکس آمدن میں کمی آ ئی ہے۔ غلط ٹیکس منصوبہ بندی، کمزور معاشی حالات اور قانونی پیچیدگیوں کو دور نہ کرنے کی وجہ سے مالی سال کے پہلے سات ماہ میں ہدف سے 214 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔
’ٹیکس وصولیوں کا ہدف چار ہزار 179 ارب روپے تھا۔ وزرات خزانہ کو ٹیکس ریفارمز پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسحاق ڈار صاحب سے اس مرتبہ آئی ایم ایف کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ ان کے وزیر خزانہ بننے سے ملک کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔