ایران اور افغانستان سے کہیں گے اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں: پاکستان

پشاور حملے کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے ایران اور افغانستان میں وفد بھیجے جائیں گے۔

پشاور پولیس لائنز میں دھماکے کے بعد 2 فروری 2023 کو متاثرہ مسجد کے اطراف ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی حکام نے ہفتے کو بتایا کہ پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد اسلام آباد افغان طالبان کے سپریم لیڈر اور ایرانی حکام سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف حملوں میں استعمال نہ ہونے دیں۔

کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ڈرامائی طور اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں پشاور کے پولیس لائنز میں ایک مسجد میں دھماکے میں 100 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے کا مطالبہ کرے گا۔ افغان طالبان کی قیادت ہبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں جو جنوبی شہر قندھار میں اپنے ٹھکانے سے احکام جاری کرتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’پاکستانی وفود تہران اور کابل بھیجے جائیں گے تاکہ دونوں ممالک سے کہا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی سرزمین کو دہشت گرد پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔‘

خیبر پختونخوا کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ کابل جانے والا وفد طالبان کے اعلیٰ ترین قیادت سے بات کرے گا۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’جب ہم اعلیٰ ترین قیادت کہتے ہیں تو اس کا مطلب افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ ہیں۔‘

افغان حکام نے فوری طور پر اے ایف پی کی جانب سے پاکستان کے تحفظات پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

لیکن گذشتہ بدھ کو افغانستان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے لیے ’دوسروں پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انہیں (پاکستان) کو اپنے گھر کے مسائل کو دیکھنا اور افغانستان پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس لائنز دھماکے کے بارے میں خیبر پختونخوا کے پولیس سربراہ معظم جاہ انصاری نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس دھماکے میں جماعت الاحرار کے لوگ ملوث ہوں۔

پولیس سربراہ نے بتایا: ’ٹی ٹی پی کی جانب سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن جماعت الاحرار نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض کارروائیاں ٹی ٹی پی نہ کرنے کے باوجود قبول کرتی ہے جبکہ بعض کرنے کے بعد بھی قبول نہیں کرتی۔ ہم اپنے طور پر تحقیق کریں گے اور کسی کی ذمہ داری قبول کرنے اور نہ کرنے پر نہیں جائیں گے۔‘

پشاور میں پولیس لائنز میں دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب گذشتہ برس نومبر کے آخر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پولیس لائنز پشاور کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جس کے ایک طرف سینٹرل جیل ہے اور دوسری جانب سروسز ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی اور سول سیکرٹریٹ بھی اسی علاقے میں ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں حال ہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں پشاور پولیس لائنز حملے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا