پاکستان کے ادارہ شماریات کے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے متعلق جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں افراط زر کی شرح 27.6 فیصد تک پہنچنے گئی۔
کنزیومر پرائس انڈیکس یا سی پی آئی کچھ مخصوص اشیا اور خدمات کی صارفین کی طرف سے ادا کی جانے والی قیمتوں میں تبدیلی کی پیمائش کرتا ہے اور مہنگائی اور افراط زر کے سب سے مقبول اقدامات میں سے ایک ہے۔
اس متواتر اور تیزی سے ہوتے اضافے کا سیدھا سیدھا اثر عوام پر ہو رہا ہے۔ روزمرہ کی اشیاء ضروریات جہاں عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں وہیں اگر ہم کپڑوں کی بات کریں تو فیشن انڈسٹری بھی اس مہنگائی کے طوفان میں ہچکولے کھا رہی ہے۔
بہت سے قارئین کے علم میں ہو گا کہ اس مرتبہ سردیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی کپڑوں (بچوں اور بروں دونوں) کے اکثر مشہور برانڈز نے سیلیں لگا دی تھیں۔
موسم سرما کے دوران بھی سیلوں کا یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا اور اب گرمیوں میں استعمال ہونے والی مصنوعات کے لیے سیلیں دسمبر اور جنوری کے مہینے سے ہی شروع ہو چکی ہیں۔
آپ چاہے دکان پر جا کر چیزیں خریدیں یا پھر آن لائن شاپنگ کریں، سیل میں آپ کو ہر آئٹم پر 30 سے 70 فیصد کا ڈسکاؤنٹ دستیاب ہے۔ اتنی زیادہ سیلوں کی وجہ جانے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے بعض بڑے سٹورز کا دورہ کرنے کے علاوہ مشہور برانڈز اور عوامی رابطوں کی ویب سائٹس پر تحقیق اور عوام سے براہ راست دریافت کیا: ’آخر برانڈز نے اتنی جلدی سیل کیوں لگائی اور کیا عوام خصوصاً مڈل اور لوئر مڈل کلاس سیل میں اپنی من پسند مصنوعات خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے؟‘
خواتین کے کپڑوں کے ایک مشہور برانڈ کے سیلز منیجر ظفرنے بتایا کہ اس بار سیل وقت سے پہلے لگی ہے کیونکہ سیزن کے دوران گاہکوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد کم رہی۔
ان کا کہنا تھا: ’زیادہ تر شاپنگ ان لوگوں نے ہی کی جو سیزن کے دوران پوری قیمت پر برانڈڈ کپڑے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ مستقل گاہک کا آپ کو علم ہوتا ہے، آپ انہیں پہچانتے ہیں، اور آُپ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی تعداد میں اور کتنی بار دکان پر آکر کپڑے خریدتا ہے۔
’لیکن اس بار ایسا کم دیکھنے کوملا۔‘
ظفر کا کہنا تھا کہ ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوئی ہے۔ ’برانڈز کے لیے بھی مہنگائی ہوئی ہے، ان کا خام مال مہنگا ہوا، تو اس بار کپڑوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جو شاید عوام کی پہنچ سے باہر ہو گیا۔
’اور جب سیزن کے دوران ہماری فروخت کم رہی تو ہم نے بھی سیل لگا دی۔‘
ظفر نے بتایا کہ موسم تبدیل ہونے کے آثار نظر آتے ہیں بیشتر برانڈز نے لان کے نئے ڈیزائن بھی جاری کر دیے ہیں۔
’لیکن ہم ابھی اپنا سردیوں کا سٹاک سیل کے ذریعے نکال رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ڈیزائن اگلے برس پرانے ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ڈر ہے کہ اتنا سٹاک پورا سال پڑے پڑے خراب ہو سکتا ہے۔ اس لیے سٹور میں تقریباً ہر شے پر سیل لگی ہے۔‘
بچوں کے کپڑوں کے ایک مشہور برانڈ کی سیلز مینیجر کومل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’اس سال تو ہم نے نومبر سے ہی سیل لگا دی۔ سیزن کے شروع میں نیا سٹاک تو بس چند دن ہی پوری قیمت پر بیچا۔‘
کئی برس سے مذکورہ برانڈ سے منسلک کومل کا کہنا تھا کہ ایسا مظہر وہ اپنے کیریئر میں پہلی مرتبہ دیکھ رہی ہیں۔ ’رواں سیزن میں تین سے چار بار سیل لگی اور اب تو سارا سٹاک سیل پر ہے۔‘
کومل کا کہنا تھا: ’ہم نے 50 فیصد تک ہر آئٹم پر سیل لگائی ہے۔ تمام تر سردیوں کے کپڑے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اب جو کسٹمر سیل سے کپڑے لے رہا ہے اس نے یہ اگلے سال پہننے ہیں۔
’بچوں کے کپڑوں میں بھی والدین اپنے بچوں کے ایک دو سائز اوپر لے رہے ہیں تاکہ اس قیمت میں خریدے کپڑے اگلے سال یا اس آگے بھی ان کے کام آسکیں۔‘
کومل کا کہنا تھا کہ ان کے سٹور پر اب بھی بڑی مقدار میں سٹاک موجود ہے، جسے وہ گرمیوں کی مصنوعات کے آنے سے قبل نکال دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حاتون خانہ زریں انیق، جو آن لائن جیولری فروخت کرتی ہیں، کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’میرا خیال ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال نے ہر انکم کلاس کو متاثر کیا ہے۔
’اور تنخواہ دار طبقے کے لیے صورت حال تب تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک معاشی صورت حال میں استحکام نہیں آتا، یا تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اب جس بیچارے نے چھ انڈے خریدنا تھے وہ پانچ پر گزارا کر رہا ہے، اور ایک جوڑا جوتی پر ہی صبر کیا جا رہا ہے۔‘
زریں انیق نے کہا کہ وہ ہمیشہ مشہور برانڈز کی سیلز کا انتظار کرتی ہیں اور اپنی پسند اور سائز کے جوڑے کی دستیابی کی دعا بھی کرتی ہیں۔
’یقین کریں میں بے انتہا خوش تھی کہ گزشتہ برس کی نسبت اس سیزن میں سیل جلدی شروع ہوئی اور میں نے دو روز قبل آن لائن اپنا پسندیدہ جوڑا، جس کی اصل قیمت چار ہزار تھی، سیل میں بائیس سو کا خرید لیا۔
’میں بہت خوش ہو گئی کیونکہ شاید میں واقعی اصل قیمت پر وہ خرید نہ پاتی۔‘
خاتون خانہ نے ملک میں قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہم تو بوکھلا کر رہ گئے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔
’ہم تو سٹور پر جا کر ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں کہ بتاؤ بل کتنا بنا ہو گا، میں کہتی ہوں ساڑھے تین ہزار اور میرے شوہر کہتے نہیں ساڑھے چھ ہزار روپے۔
’یہ معاملہ تو اب مضحکہ خیز اور قابل فکر ہو چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مہنگائی کے دور میں چاہے آپ دس فیصد چھوٹ دے دیں لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ پہلے سے سستا مل رہا ہے تو لفظ ’سستا‘بہت پرکشش لگتا ہے، چاہے وہ دھوکا ہی کیوں نہ ہو۔
زریں انیق نے اتفاق کیا کہ اکثر خریدار اس وقت جاری سیلز میں آئندہ سال کے لیے خریداریاں کر رہے ہیں۔ ’میں نے خود ایک ہلکے کام والے جوڑے کا سامنے کا حصہ یہ سوچ کر خریدا کہ اگلے سال یہ اس قیمت میں نہیں ملے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے عوامی رابطوں پر موجود کچھ خواتین کے گروپس میں سوال رکھا کہ کیا مہنگائی نے عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا ہے؟
ایک صارف عاصفہ ظفر کے خیال تھا: ’برانڈز لوگوں کی نفسیات سے کھیل رہے ہیں۔ دراصل کچھ برانڈز نے یہ کیا ہے کہ جو چیز دس ہزار روپے کی تھی اسے پندرہ کا کر دیا اور اسی چیز کو سیل کے نام پر دس ہزار روپے میں بیچ رہے ہیں۔‘
ایک اور فیس بک صارف فاطمہ بتول جعفری کا خیال ہے: ’بہت سے برانڈز نے اپنی مصنوعات کی قیمتیں پاگل پن کی حد تک بڑھائی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خریداری کر ہی نہیں پائے۔
’برانڈز نے اپنے سیلز کا حدف پانے کے لیے ہر ایک دو ماہ میں ڈسکاؤنٹ دیا اور ایسا گزشتہ برسوں میں ہوتا میں نے نہیں دیکھا۔ میرے خیال میں بہت زیادہ سیل لگانا ایک برانڈ کے لیے منفی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ گاہک کو اندازہ ہے کہ برانڈ سیل کے باوجود کما رہا ہے، کوئی نقصان نہیں کر رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کپڑوں کے برانڈ کے کریئٹیو ڈیزائننگ کے سربراہ سید محمد حسنین رضا گردیزی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان سمیت اکثر برانڈز کے عوامی سرویز نے قوت خرید میں کمی کی طرف اشارہ کیا۔
’تقریباً تمام بڑے برانڈز نے پیک سیزن میں سیلز لگائیں کیونکہ ہمارے سمیت دیگر برانڈز نے بھی سروے کیے اور دیکھا کہ عوام کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔
’سیلز میں قیمت تو پہلے والی ہے لیکن ہم نے اپنا منافع کم کیا ہے کیونکہ سٹورز میں خریداری نہیں ہو رہی تھی، برانڈ نے مارکیٹنگ سٹریٹجی ایسی بنائی پڑے ہوئے سٹاک کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سیل میں ہم قیمت بہت کم نہیں کر رہے ہوتے لیکن جب اعلان ہو جاتا ہے تو خریدار کے ذہن میں ہوتا ہے کہ چیز سستی ہے تو خرید لیں۔‘
ماہر معاشیات ڈاکٹر فہد علی کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر بڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی بڑھنے جا رہی ہیں، جبکہ حکومت گیس اور بجلی کے نرخ برابر کرنے جا رہی ہے، جس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوری کا 27.50 فیصد افراط زر 1975 کے بعد کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
ڈاکٹر فہد علی کا کہنا تھا کہ افراط زر میں اضافے کے باعث اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جس سے قوت خرید نیچے گرتی ہے، خصوصاً ذرائع آمدن میں بھی لمبے عرصے سے اضافہ نہ ہوا ہو۔
ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ برانڈز کو قوت خرید میں کمی کا اندازہ ہے اور اسی لیے وہ سیلز کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں تاکہ کم قیمت پر مصونعات پیش کر کے سٹاک کو نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر میں اضافہ برقرار رہنے کی صورت میں اکثر چھوٹے برانڈز کے بند ہونے کے امکاناے موجود ہیں۔