پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس کو اہم کیوں نہیں سمجھتی؟

حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پانچ فروری کو آن لائن خطاب کر رہے ہیں (تصویر: پی ٹی آئی یوٹیوب)

ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، دہشت گردی کی نئی لہر اور سیاسی عدم استحکام کی بدستور موجودگی کے باوجود سیاسی رہنما مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے سے معترض ہیں۔

حکومت نے دہشت گردی کی تازہ لہر کے تناظر میں اتفاق رائے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلائی ہے جس کی تاحال نئی تاریخ نہیں دی گئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے شمولیت سے انکار کردیا۔

حکومتی اتحاد میں پہلے ہی 11 جماعتیں شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن میں واحد اہم ترین جماعت تحریک انصاف کے علاوہ دوسری جماعتیں شرکت پر آمادہ ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کی طرف سے تاحال آمادگی نہیں آئی ہے اور مختلف نوعیت کے اعتراض کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل تحریک انصاف نے پشاور میں ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اس عذر پر شرکت نہ کی کہ دعوت مناسب طور پر نہ دی گئی۔ حکومت نے بھی دو بار آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کی تاریخ نہ دے کر غیر معینہ مدت تک موخر کر دی۔

چیئرمین تحریک انصاف کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ’کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ اور دہشت گردی کے واقعات پر پوری دنیا میں کوئی اے پی سی نہیں بلاتا بلکہ ایسے واقعات روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں بڑے سانحات اور قومی مسائل پر عوام اور اداروں کو اعتماد دینے کے لیے سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر متفقہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اے پی سی بلانے پر حکومتی اقدام اور پی ٹی آئی کے تحفظات

پشاور میں دہشت گردی کے واقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا مگر پہلے سات فروری اور پھر نو فروری (جمعرات یعنی آج) کو پارلیمنٹ میں اے پی سی بلانے کا شیڈول جاری کیا گیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ ترکی کی وجہ سے جمعرات نو فروری کو بلائی گئی اے پی سی موخر کی جا رہی ہے تاہم اتحادیوں کی مشاورت سے نئی تاریخ کا اعلان ہوگا۔

اس کے بعد وزیر اعظم کا دورہ ترکی بھی موخر ہوگیا جبکہ حکمران اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اے پی سی میں شامل ہونے پر راضی ہیں مگر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی ابھی تک شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے منگل کی شام صحافیوں سے ملاقات کے دوران اے پی سی میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شر پسند کارروائیاں روکنے کے لیے حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہییں۔

انہوں نے کہا: ’سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی اے پی سی بلائی گئی تھی کیا دہشت گردی کنٹرول ہوئی؟ اس لیے اے پی سی صرف وقت گزارنے کا طریقہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں بھی دہشت گردی ہوئی لیکن ہم نے اے پی سی بلانے کی بجائے خیبر پختونخوا کی پولیس کو ٹریننگ دی اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے مشاورت جاری ہے کہ اے پی سی میں شامل ہونا ہے یا نہیں کیونکہ حکومت تو خود سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی بار بار تاریخ دے کر موخر کیے جارہی ہے۔

 تین فروری کو پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’حکومت مل کر فیصلے کرنے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔‘ انہوں نے ساتھ ہی میں ایپکس کمیٹی اور اے پی سی میں شرکت سے انکار کیا تھا۔

اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کرنے والوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟

اے پی سی سے کوئی اثر پڑتا ہے؟

سینیئر صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشت کردی کو روکنے کے لیے ادارے تو اپنا کام کر ہی رہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کو بھی اختلافات بھلا کر قومی مفادات کے لیے ایک میز پر بیٹھنا ہوتا ہے کیونکہ یہ کام صرف سکیورٹی فورسز کا نہیں بلکہ حکمرانوں اور سیاسی قائدین کا بھی ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمان کے بقول نواز شریف دور میں جب اے پی ایس واقعہ ہوا تو انہوں نے اے پی سی بلائی تھی جس میں عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے شریک ہوئے تھے۔

’اس موقع پر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا اور سیاسی قیادت نے متفقہ فیصلے کیے تھے اس لیے ان فیصلوں پر کسی کو اعتراض نہیں تھا کیونکہ سب کی مشاورت شامل تھی اور اس سے عوامی اور سکیورٹی اداروں میں اعتماد کی فضا قائم ہوئی تھی۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ بالکل اسی طرح اب بھی یہ چیلنج در پیش ہے کیونکہ دہشت گردی روکنے کے لیے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا تھا اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ علما اور شہریوں نے بھی کردار ادا کرنا تھا۔

’بد قسمتی سے متعلقہ ادارے ہی کارروائیاں کرتے دکھائی دیے نہ کے پی حکومت نے عمل درآمد کیا نہ ہی پنجاب، بلوچستان یا سندھ میں اس طرح عمل ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ ‘

سلمان غنی نے کہا صوبائی حکومتوں نے بھی پولیس کو تربیت دینی تھی، علما نے عوام میں شعور بیدار کرنا تھا کہ انتہا پسندی کی سوچ پروان چڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے۔

اینکر پرسن تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو یہی دیکھنے میں آیا کہ پہلے اے پی سی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی قیادت مل کر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے منصوبہ بندی نہ کرے۔

تنزیلہ نے کہا کہ قومی ایشوز پر آل پارٹیز کانفرنس کی اہمیت اس لیے ہوتی ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ شہریوں اوراس کے بارے میں بننے والی حکمت عملی سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔

ان کے خیال میں: ’دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے کوئی اے پی سی نہیں بلائی لہذا کے پی میں شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں پر دوسری جماعتوں کو تحفظات رہے اسی لیے سوال اٹھ رہے ہیں کہ وفاق سے 417 ارب فنڈز جاری ہونے کے باوجود پشاورمیں نہ سیف سٹی کیمرے لگے نہ ہی فرانزک لیب بن سکی۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف بھی دیگر جماعتوں کو ساتھ  لے کر چلتی تو یہ تمام ذمہ داری ان پر عائد نہ ہوتی۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق کل جماعتی کانفرنس کا انقعاد اب کچھ وقت میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست