بیرون ملک سے اشتہاری ملزمان کو پکڑنے کے لیے انٹرپول رابطہ ونگ قائم

آئی جی پنجاب کے مطابق ’اشتہاری ملزمان کی گرفتاری میں کوئی بھی افسر یا اہلکار کسی قسم کی کوتاہی برتتا ہے تو اس کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔‘

پنجاب پولیس نے اندرون ملک اور بیرون ملک روپوش اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹرپول کے تعاون سے لاہور میں لائزون ونگ قائم کر دیا۔

اس حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ ’اندرون ملک دیگر ممالک میں روپوش اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے پنجاب پولیس نے انٹر پول اور ایف آئی اے کے تعاون سے لائزون ونگ قائم کر دیا ہے۔‘

آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ’انٹرپول کی ہر سہولت کو اشتہاری ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مشرق وسطیٰ، جنوبی افریقہ، یورپ اور امریکہ سمیت جن ممالک سے پاکستان کا معاہدہ ہے وہاں مقیم اشتہاریوں کو گرفتار کر کے واپس لایا جائے گا۔ ڈکیتی، قتل، چوری، فراڈ، قبضہ اور چیک باؤنس ہونے کے کیسز سمیت تمام مقدمات کے اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے کاروائیوں میں تیزی لائی جائے۔‘

انہوں نے عوام کو پیغام دیا کہ ’اگر کسی مدعی مقدمہ کا اشتہاری ملزم کسی بھی ملک میں ہے تو وہ فوری اپنے متعلقہ ڈی پی او سے رابطہ کرے۔  پنجاب پولیس کو ہدایت ہے کہ صوبے بھر میں اس کام کے لیے بنائی گئی پولیس ٹیمیں مدعیوں کے ساتھ خود رابطہ کریں اور موثر کوارڈی نیشن سے اشتہاریوں کی جلد گرفتاری کو یقینی بنائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر 20 فروری کے بعد مدعی مقدمے کو اشتہاری کی گرفتاری کے لیے پولیس افسر کا فون نہیں آتا تو مدعی اس کی اطلاع 1787 پر دیں۔‘

آئی جی پنجاب کے مطابق ’اشتہاری ملزمان کی گرفتاری میں کوئی بھی افسر یا اہلکار کسی قسم کی کوتاہی برتتا ہے تو اس کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔‘

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سابق عہدیداروں سے بات کی تو سابق ڈائریکٹر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ کا کہنا تھا کہ: ’پہلے تو ہمیں اس کا پس منظر سمجھنا چاہیے۔ کچھ شہر جیسے گوجرانوالہ، گجرات اور سیالکوٹ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے ملزمان زیادہ تر یہاں بڑے جرائم کر کے باہر کے ملکوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر وہ یہاں کریمنل گینگز چلا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی دیر سے اسی طرح سے چل رہا ہے۔‘

سجاد مصطفیٰ باجوہ کے مطابق ’میری معلومات کے مطابق پاکستان کے اندر چھپے ہوئے اشتہاریوں کو بھی ڈھونڈنے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ممکنہ طور پر اشتہاریوں کی جیو فینسنگ کی جا سکتی ہے۔ ان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ جس سے ان کے شناختی کارڈ اور فون نمبر بلاک ہو جائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ان ملزمان کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ جو شخص انہیں چھپنے میں معاونت فراہم کر رہا ھو گا وہ ٹریس کیا جائے گا اور ان کے خلاف اشتہاریوں کی مدد کرنے کے جرم کی پاداش میں سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اشتہاریوں کی مدد کرنے والوں کے شناختی کارڈ بھی بلاک ہو جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب پولیس نے جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں پورا ڈیٹا بنا کر اشتہاریوں کی کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ اس ڈیٹا کی مدد سے جو شکایت کنندہ ہیں ان سے تفتیشی افسران، اور ایس ایچ اوز ، ڈی پی اوز وغیرہ خود رابطہ کریں گے اور ان سے مزید معلومات لیں گے۔‘

ان کے مطابق ’ویسے تو بہت سے ملزمان کی معلومات پولیس کے پاس بھی ہوتی ہے اور ورثا کے پاس بھی، اگر کوئی کمی بیشی ہوگی تو پولیس والے ڈیٹا ایف آئی اے سے شئیر کریں گے اور تمام ملزمان کا ایف آئی اے امیگریشن سے ریکارڈ حاصل کریں گے جو متعلقہ ملک اور انٹرپول سے شئیر کیا جاۓ گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈی جی ایف آئی اے انٹرپول پاکستان کے بھی سربراہ ہیں وہ اس معلومات کی بنیاد پر اشتہاری کا ریڈ نوٹس جاری کروائیں گے۔ جو شخص ملک سے کوئی جرم کر کے فرار ہو گیا ہے اسے پکڑنے کا پورا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جس کے تحت ہر ضلع کا ڈی پی او یا سی پی او عدالتوں سے اشتہاری کا انٹرنیشنل وارنٹ لیتے ہیں اور اس اشتہاری کی معلومات کا پورا پرفارما بھر کے اسے انٹرپول پاکستان کو بھیجتے ہیں۔ جسے انٹرپول سے شئیر کیا جاتا ہے اور پھر انٹرپول ہیڈ کوارٹر ان اشتہاریوں کے ریڈ نوٹس جاری کرتا ہے۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’نوٹس جاری ہونے کے بعد ملزم جس بھی ائیر پورٹ پر پائے جائیں گے وہاں انہیں روک لیا جائے گا۔ جہاں بھی وہ پکڑا جائے گا اس ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان انٹرپول کو اطلاع دیں گے اور انٹرپول پاکستان ایف آئی اے کے ذریعہ متعلقہ مقامی پولیس کے ساتھ وہ معلومات شئیر کرے گا۔‘

ان کے مطابق ’کچھ ملکوں میں ضروری نہیں ہے کہ وہ مجرم کو واپس پاکستان بھیجیں لیکن ان ممالک میں ان ملزمان کا وہیں پر ٹرائل کروایا جائے گا اور انہیں سزا دلوائی جائے گی۔ اس کے لیے پہلے اسے اس ملک کی مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور ان کے سامنے تمام ثبوت پیش کیے جائیں گے۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر اس ملک کی مقامی عدالت اس ملزم کا وہیں ٹرائل بھی کر سکتی ہے اور اسے واپس بھی بھیج سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان