بائیڈن کا دورہ یوکرین دنیا کے لیے خفیہ تھا مگر روس کو اطلاع دی گئی

امریکی صدر شاذ و نادر ہی ایسے علاقے کا سفر کرتے ہیں جہاں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کا فضائی حدود پر کنٹرول نہ ہو۔

امریکی صدر پولینڈ سے 10 گھنٹے کے ٹرین کے سفر سے یوکرین پہنچے (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کے گزشتہ روز یوکرین دورے کو خفیہ رکھا مگر روس، جو کہ یوکرین کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، اسے دورے سے قبل مطلع کیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں لیکن قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دورے کے حوالے سے بتایا  کہ انہوں نے جو بائیڈن کی واشنگٹن سے روانگی سے کچھ دیر قبل روس کو دورہ کیئف کے متعلق مطلع کیا تھا تاکہ ایسے کسی بھی غلط اندازے سے بچا جا سکے جو دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کو براہ راست تصادم کی طرف لے جا سکتا ہے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی صدر نے یوکرین کے دارالحکومت میں پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا، مستقبل کے اقدامات پر زیلنسکی سے مشاورت کی، فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور امریکی سفارت خانے کے عملے سے ملاقات کی۔

مجموعی طور پر وہ تقریبا 23 گھنٹے تک یوکرین کی حدود میں رہے اور بذریعہ ٹرین پولینڈ سے گئے اور واپس آئے۔

امریکی صدر شاذ و نادر ہی ایسے علاقے کا سفر کرتے ہیں جہاں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کا فضائی حدود پر کنٹرول نہ ہو۔

یوکرین میں امریکی فوج کی موجودگی نہیں ہے سوائے کیئف میں سفارت خانے کی حفاظت کرنے والے میرینز کے ایک چھوٹے سے دستے کے۔

جب بائیڈن یوکرین میں تھے تو نگرانی کرنے والے امریکی طیارے، جن میں ای-3 سینٹری ایئربورن ریڈار اور ایک الیکٹرانک آر سی-135 ڈبلیو ریویٹ جوائنٹ طیارے شامل تھے جو پولینڈ کی فضائی حدود سے کیئف پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

کئی ہفتوں سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بائیڈن 24 فروری کو روسی حملے کی برسی کے موقع پر یوکرین کا دورہ کریں گے۔ لیکن وائٹ ہاؤس نے بارہا کہا تھا کہ پولینڈ کے دورے کے اعلان کے بعد بھی یوکرین کے صدارتی دورے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

وائٹ ہاؤس میں بائیڈن کے دورہ کیئف کی منصوبہ بندی کو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے چند معاونین کو آگاہ کیا گیا تھا۔

امریکی صدر نے رازداری برقرار رکھنے کے لیے چند لوگوں کے ساتھ سفر کیا، جس میں صرف چند سینئر معاونین اور دو صحافی شامل تھے۔

بائیڈن اتوار کی صبح چار بج کر 15 منٹ پر واشنگٹن کے قریب جوائنٹ بیس اینڈریوز سے خاموشی سے روانہ ہوئے اور جرمنی کے رامسٹین ایئر بیس پر رکے اور پولینڈ سے رات کی ٹرین میں یوکرین پہنچے۔ وہ پیر کی صبح آٹھ بجے کیئف پہنچے اور دوپہر ایک بجے کے بعد ٹرین کے ذریعے پولینڈ واپس چلے گئے۔

بائیڈن کا بطور صدر کسی جنگی علاقے کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ان کے حالیہ پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ، براک اوباما اور جارج ڈبلیو بش نے اپنی صدارت کے دوران افغانستان اور عراق کا اچانک دورہ کیا اور امریکی فوجیوں اور ان ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

’کیئف ایک سال بعد بھی قائم‘

مارینسکی پیلس میں وولودی میر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ ’ایک سال بعد بھی کیئف قائم ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اور یوکرین قائم ہے۔ جمہوریت قائم ہے۔ امریکی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

یہ دورہ ایک اہم موقع پر ہوا ہے: جو بائیڈن یوکرین کی حمایت میں اتحادیوں کو متحد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ موسم بہار میں جنگ میں شدت آسکتی ہے۔

صدر زیلنسکی اپنے اتحادیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ وعدے کے مطابق ہتھیاروں کے نظام کی فراہمی میں تیزی لائیں اور مغرب سے لڑاکا طیارے فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بائیڈن اور زیلنسکی کے سینٹ مائیکل کیتھیڈرل کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جب فضائی حملوں والے سائرن بج رہے تھے تو امریکی صدر کو بھی اس دہشت کا سامنا کرنا پڑا جس کے ساتھ یوکرین کے لوگ تقریبا ایک سال سے رہ رہے ہیں۔

انہوں نے 2014 سے مرنے والے یوکرین کے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دیوار یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور ایک لمحے کی خاموشی اختیار کی۔

2014 میں روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور مشرقی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ لڑائی شروع ہو گئی تھی۔

یوکرین میں جو بائیڈن نے ہووٹزر توپوں، ٹینک شکن میزائلوں، فضائی نگرانی کے ریڈار اور دیگر امداد کے لیے پہلے سے فراہم کی جانے والی 50 ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ امریکہ کی جانب سے اضافی نصف ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا۔

یوکرین میدان جنگ کے سسٹم پر بھی زور دے رہا ہے جس سے ان کی افواج ایسے روسی اہداف کو نشانہ بنا سکے گی جو ہائمارس (HIMARS) میزائلوں کی رینج سے باہر منتقل کیے جا چکے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا کہ دونوں صدور نے ’طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں اور ان ہتھیاروں کے بارے میں بات کی جو اب بھی یوکرین کو فراہم کیے جا سکتے ہیں حالانکہ یہ پہلے فراہم نہیں کیے گئے تھے۔‘ لیکن انہوں نے  نئے وعدوں کی تفصیل نہیں بتائی۔

یوکرینی صدر نے مزید کہا، ’ہمارے مذاکرات بہت نتیجہ خیز رہے۔‘

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے یوکرین کے لیے کسی ممکنہ نئی صلاحیت کی تفصیل نہیں دی لیکن کہا کہ اس موضوع پر ’اچھی بات چیت‘ ہوئی۔

پولینڈ کے شہر وارسا کے طے شدہ دورے سے قبل یوکرین کے اپنے دورے کے دوران بائیڈن کا مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ امریکہ روسی افواج کو پسپا کرنے کے لیے ’جب تک درکار ہوگا‘ یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے، حالانکہ رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ہتھیاروں اور براہ راست معاشی امداد کی فراہمی کے لیے امریکی اور اتحادیوں کی حمایت میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔

زیلنسکی کے لیے امریکی صدر کا یوکرین کی سرزمین پر ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں یہ اہم ہے کہ جنگ میں یوکرین کے لیے امریکی حمایت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔‘

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جوبائیڈن نے حملے کی رات زیلنسکی کے ساتھ بات چیت کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’ایک سال پہلے کی وہ تاریک رات، جب دنیا کیئف کی شکست یا شاید یوکرین کے بھی خاتمے کے لیے تقریبا تیار تھی۔‘

ایک سال بعد دارالحکومت مضبوطی سے یوکرین کے کنٹرول میں ہے. اگرچہ شہر میں حالات معمول پر آ چکے ہیں، لیکن ملک بھر میں فوجی اور سویلین انفراسٹرکچر کے خلاف باقاعدگی سے فضائی حملوں کے سائرن اور بار بار میزائل اور قاتل ڈرون حملے اس بات کی مسلسل یاد دہانی کراتے ہیں کہ جنگ اب بھی جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی صدر نے کہا کہ ’یوکرین کو جو قیمت برداشت کرنی پڑی ہے وہ غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ اور قربانیاں بہت بڑی ہیں۔‘ لیکن ’پیوتن کی فتح کی جنگ ناکام ہو رہی ہے۔‘

جوبائیڈن نے کہا، ’ وہ ہمارے متحد نہ ہونے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ ہمیں ہرا سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اب بھی ایسا سوچ رہے ہیں۔ خدا جانے وہ کیا سوچ رہے ہیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ وہی سوچ رہے ہیں. لیکن وہ بالکل غلط تھا۔‘

صدارتی محل میں مہمانوں کی ایک کتاب پر دستخط کرتے ہوئے بائیڈن نے زیلنسکی اور یوکرین کے عوام کی تعریف کی اور اختتام پر ’سلاوا یوکرینینی‘ یعنی ’یوکرین کی شان!‘ لکھا۔

یوکرین کے رہنما نے ایک مترجم کے ذریعے کہا کہ جوبائیڈن کا دورہ اس سال ’ہمیں فتح کے قریب لے جائے گا۔‘ انہوں نے امریکیوں اور ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ’جنہیں آزادی کی قدر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ