حیدرآباد دکن کے پان جن کے بغیر تقریبات ادھوری رہتی تھیں

پان دان اور پان ہمیشہ سے نوابوں کا شوق رہا ہے، جس کی جھلک حیدرآبادی گھروں میں بھی خاص طور پر دکھائی دیتی تھی لیکن اب یہ خوبصورت روایت ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔

نوابی شہر کہلایا جانے والا حیدرآبار دکن نہ صرف بریانی کے لیے مشہور ہے بلکہ اس شہر کی ایک اور خاص نشانی پان اور پاندان بھی ہے، جسے حیدرآباد کی تہذیب کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔

حیدرآبادیوں کا پان سے اس قدر لگاﺅ ہے کہ جگہ جگہ پان کے ڈھابے اور دکانیں دکھائی دیتی ہیں جہاں لوگ جا کر اپنی پسند کا پان تیار کرواتے اور اسے کھا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

تاہم حیدرآبادی گھروں میں اب پان دان کی خوبصورت روایت ختم ہوتی نظر آرہی ہے، جو گھریلو تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔

حیدرآباد کی ایک مقامی خاتون امتیاز خانم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’حیدرآباد میں پان کے بغیر دعوت کو نامکمل سمجھا جاتا تھا۔ دعوت چھوٹی ہو یا بڑی لوگ اپنے پان دان سے تازہ پان پیش کرتے اور اس کے بعد ہی دعوت کو مکمل سمجھا جاتا، لیکن اب یہ رواج ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’شادی بیاہ کی تقاریب میں پان اور پان دان کی کافی اہمیت تھی۔ لڑکیوں کو جہیز میں پان دان دیا جاتا تھا۔ الگ الگ لوازمات میں خاصدان، پاندان، اگالدان شامل تھے۔ شادی کے دعوت نامے پان کے ساتھ پہنچائے جاتے تھے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کی پان اور لونگ کے ساتھ خوشخبری سنائی جاتی تھی۔ دعائیں دی جاتی تھی کہ آپ کا پان دان کبھی خالی نہ ہو۔ یہ حیدرآباد کی تہذیب تھی۔ نئی نسل کو تو اس کا علم بھی نہیں ہے۔‘

امتیار خانم کے بقول: ’بزرگ خواتین اپنے پاندان سے پان کھلاتیں تو ہم سلام کر کے وصول کرتے اور وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی تھیں لیکن آج ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ سڑک کے کناروں، گلی کے نکڑ اور کوچوں پر پان کی دکانوں کا رواج نہیں تھا بلکہ گھروں ہی میں تیار کیے جاتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ سڑکوں پر پان کی دکانیں کھلنے لگیں۔ لوگ پان دان کا لفظ ہی بھول گئے اور بس پان اور پان والا یاد رہ گیا ہے۔‘

 پان دان اور پان ہمیشہ سے نوابوں کا شوق رہا ہے۔ ملکہ نور جہاں کے زمانے میں پان کافی مقبول ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ساتویں نظام میر عثمان علی خان کو پان کا بہت شوق تھا اور ان کے لیے ایک صندوق میں پان کے پتوں کو ذخیرہ کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریسرچ سکالر سید انعام الرحمٰن غیور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پان صحت کے اعتبار سے کافی مفید ہے اور لوگ بڑے ذوق و شوق سے کھاتے تھے، لیکن نور جہاں کے وقت سے پان درباری تہذیب کا ایک حصہ بنتا گیا۔ حیدرآباد کے نوابین اور اودھ کے نوابین نے اسے ایسا فروغ دیا کہ یہ باقاعدہ تہذیب بن گئی۔ متلون گھرانوں میں یہ چلن تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے بیاہ کے وقت پان کنیز دان کی ایک خادمہ کو بھی بھیجتے جو سسرال میں پان بنانے اور کھلانے کا کام کر سکے اور اسے پہلے پان بنانے اور اسے تقسیم کرنے سے متعلق مہارت دی جاتی تھی۔‘

سید انعام الرحمٰن غیور نے بتایا کہ ’نواب، سالار جنگ بہادر کے پاس میٹنگ کے لیے آتے اور سالار جنگ کی نظر میں وہ ملاقات ختم ہو چکی ہوتی تو وہ اشارہ کرتے اور ان کا ملازم شرکا کے سامنے پان دان رکھتا۔ شرکا پان دان سے پان اٹھاتے اور نکل جاتے، اس طرح سے سالار جنگ کے دربار کی میٹنگ کے اختتام کا اعلان کیا جاتا۔‘

پاندان میں الگ الگ خانے ہوتے تھے جن میں کتھا، چونا، چھالیہ، لونگ، الائچی، سونف اور جائفل رکھا جاتا۔ اگالدان اور خاصدان بھی پاندان کا ایک جُز ہے۔ اگالدان میں پان کی پیپ تھوکی جاتی، وہیں خواتین جب پان تیار کرتیں تو پان کو خاصدان میں رکھا جاتا اور اس کے بعد جہاں مرد حضرات بیٹھتے وہاں تقسیم کیے جاتے۔

سید انعام الرحمٰن غیور کے مطابق: ’پان منہ کی تازگی کے لیے کھایا جاتا ہے۔ یہ ذیابیطس، خون صاف کرنے اور ہاضمے کے نظام کی حفاظت لیے بہت فائدہ مند رہتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ