انڈیا: حیدرآباد دکن کے نظام کی وفات کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ

انڈیا میں حیدرآباد دکن کے آٹھویں نظام مکرم جاہ بہادر 80 کی دہائی کے دوران انڈیا کے امیر ترین شخص قرار پائے تھے۔

انڈیا میں حیدرآباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان کے پوتے مکرم جاہ بہادر کے انتقال کے ساتھ ہی نظام دور کا اختتام ہو گیا۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

مکرم جاہ بہادر چار روز قبل 89 برس کی عمر میں ترکی کے شہر استنبول میں فانی دنیا کو خیر باد کہہ گئے تھے۔ وہ کافی عرصے سے استنبول میں مقیم تھے۔

مکرم جاہ کی اپنے آبائی وطن میں دفن ہونے کی خواہش کے مدنظر 17 جنوری کو ان کی میت حیدرآباد دکن لائی گی، جہاں آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد آصف جاہ کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

مکرم جاہ بہادر کی پیدائش 1933 میں فرانس کے شہر نیس میں ہوئی تھی۔ نواب میر عثمان علی خان نے ان کو اپنا جانشین قرار دیا تھا، جن کے 1967 میں انتقال کے بعد مکرم جاہ بہادر کی مسند نشینی کی تقریب حیدرآباد کے مشہور چومحلہ پیلس میں ہوئی تھی۔

مکرم جاہ نے ابتدائی تعلیم دورادہن میں حاصل کی، اور بعدازاں اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے لندن گئے، جہاں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ میں داخلہ لیا۔

شادیاں

مکرم جاہ بہادر کی پانچ شادیوں میں سے کوئی بھی کامیاب نہ رہ سکی۔

انہوں نے پہلی شادی 1959 میں ایسریٰ برگین سے کی جو ایک ترک رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

دوسری شادی سال 1979 میں سابق ایئر ہوسٹس اور بی بی سی کی غیر مسلم ملازمہ ہیلن سیمنز سے کی، جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا، اور نام بدل کر عائشہ رکھ لیا۔

عائشہ کے انتقال کے بعد مکرم جاہ نے 1992 میں سابق مس ترکی منولیا اونور سے شادی کی، اور اسی سال سابق مس مراکش جمیلہ بولروس سے شادی رچائی، جبکہ دو سال بعد (1994 میں) آپ شہزادی عائشہ آرچیدی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے۔

دولت اور جائدادیں

اسّی کی دہائی تک مکرم جاہ ہندوستان کے امیر ترین شخص تھے، تاہم 90 کی دہائی میں طلاق کے تصفیے کے لیے وہ کچھ اثاثے کھو بیٹھے۔ اس وقت ان کی اثاثوں کا مجموعی تخمینہ ایک ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔

1937 میں ٹائم میگزین نے مکرم جاہ کے دادا اور حیدرآباد کے ساتویں نظام میر عثمان علی خاں کی تصاویر سرورق پر چھاپی اور انھیں دنیا کا مالدار ترین شخص قرار دیا۔ اس وقت ان کی دولت کا تخمیہ دو ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔

نظام کی اپنی کرنسی اور اپنی ٹکسال (سکے بنانے والی مشین) تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں مہنگی گاڑیاں اور کاریں چلانے کا شوق تھا، اور ان کے پاس دس کروڑ پاؤنڈ سونا اور 40 کروڑ پاؤنڈ کے جوہرات بھی تھے۔

نظام کے پاس جیکب ڈائمنڈ تھا جس کی مالیت تقریباً پانچ کروڑ پاؤنڈ تھی۔

انہوں نے اپنے قیام کے لیے آسٹریلیا میں ایک جائیداد بھی خریدی رکھی تھی۔

اگست 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد نظام میر عثمان علی خاں نے خودمختار ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم ستمبر 1948 کو بھارتی افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا اور صرف پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔

آصف جاہ نے اپنے پوتے نواب میر برکت علی خان بہادر مکرم جاہ کو اپنا جانشین منتخب کیا، اور 1967 میں وہ حیدرآباد کے آخری نظام بنے۔

مکرم جاہ اب بھی حیدرآباد میں بہت بڑی دولت کے مالک ہیں، اور ان کے محلات میں چومحلہ پیلس، فلک نما پیلس، نظری باغ محل، چیران پیلس، بنجارہ ہلز، پرانی حویلی اور اورنگ آباد میں نوکھنڈا محل بھی شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا