کیا مصنوعی ذہانت انڈین سپریم کورٹ کو مشکلات سے نکال لے گی؟

انڈین قوانین لائیو سٹریم میں 10 منٹ کی تاخیر کی تجویز کرتے ہیں۔ تاخیر کا مقصد بظاہر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غیر متوقع واقعات جیساکہ حساس معلومات میں ترمیم کی جا سکے۔

نو جولائی 2018 کو نئی دہلی میں انڈیا کی سپریم کورٹ کی عمارت کا منظر (اے ایف پی)

سال2017 میں، ایک 21 سالہ قانون کے طالب علم کو محسوس ہوا کہ ہفتے کے بعض ایام میں انڈیا کی اعلیٰ ترین عدالت کے کمروں میں جانے کی اجازت نہ دینا امتیازی سلوک ہے۔ انہوں نے اس رواج کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے تجویز دی کہ عدالتی کارروائی کو لائیو سٹریم کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان جیسے قانون کے طالب علموں فائدہ ہو سکے۔

پانچ سال بعد، سینیئر ایڈوکیٹ اندرا جیسنگ کی تجویز پر، سپریم کورٹ آف انڈیا نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے کمرہ عدالت کی کارروائیوں کی لائیو ٹرانسکرپشن متعارف کرائی، یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے عدالتی ریکارڈ کو جدید بنانے اور نئے وکلا کی مدد ہوگی۔

تجرباتی بنیادوں پر اس کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے، انڈیا کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اگر یہ ’اچھی طرح سے کام کرتا ہے، تو ہمارے پاس دلائل کا مستقل ریکارڈ ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سے نہ صرف وکلا بلکہ لا کالجوں کے ان طلبا کو بھی مدد ملے گی جو یہ جان سکتے ہیں کہ اہم مقدمات پر سپریم کورٹ کے سامنے کیسے بحث کی گئی تھی۔‘

یہ نئی تکنیکی جدت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی  جب زیر التوا مقدمات کی بہت زیادہ تعداد اور عدلیہ اور حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے الزامات جیسے مسائل کے باعث انڈیا کے عدالتی نظام پر اعتماد کم ہوگیا۔

گذشتہ برس کمرہ عدالت میں کیمروں کی اجازت دینے کے اقدام سے لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی فیکلٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم سوپنل ترپاٹھی ’حیران‘ رہ گئے تھے۔

انہوں نے یہ امید تقریباً کھو دی تھی کہ عدالت اپنے 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی اور انصاف تک رسائی کے فرد کے جس حق کی ضمانت انڈین آئین میں دی گئی ہے، اس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دی جائے گی۔

دی انڈپنڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’میں عدالت جانے کے لیے پاس لینے کی غرض سے رجسٹری گیا تھا۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کو پیر کے روز [عدالت] کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں کیونکہ آپ وکیل نہیں ہیں۔‘

ایک اصول قانون کے طالب علم  کو پیر اور جمعے کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، جب نئے کیسز کی لسٹ لگتی ہے۔ اس وقت، سوپنل ترپاٹھی اس کیس میں سپریم کورٹ کے ایک وکیل کے معاون تھے جو پیر کو لگا ہوا تھا۔

’مجھے یہ بہت امتیازی لگا.... کیونکہ بار کونسل کا ایک اصول ہے جس کے مطابق ہمارے لیے ضروری ہے کہ کسی کی زیرنگرانی کام کریں۔

’اور مجھے لگا کہ اگر ہمیں کچھ ایام میں عدالت کے احاطے کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے تو یہ ان رہنما  اصولوں کے تحت سیکھنے کے میرے حق کی خلاف ورزی ہے اور یہ اس انٹرنشپ کے مقصد کے مترادف ہے۔‘

سوپنل ترپاٹھی نے ایک مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا جس میں عدالتی کارروائی کو میڈیا روم میں لائیو سٹریمنگ کرنے کا مشورہ دیا گیا، جہاں ’انٹرن بیٹھ کر دیکھ سکیں کہ عدالت میں کیا ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا، ’انٹرنز کو اجازت نہ دینے کی دلیل اکثر یہ ہوتی ہے کہ [وہ] پہلے ہی بھری ہوئی عدالتوں کو مزید پرہجوم  بنا دیتے ہیں۔

’تو میں نے کہا، اگر آپ کارروائی کو لائیوسٹیم کریں تو ہم ہجوم کا حل نکال سکتے ہیں۔‘

تاہم، یہ سہولت عدالت کے تمام کمروں میں استعمال نہیں گی۔ اس سہولت کو صرف ان پانچ یا اس سے زیادہ ججوں پر مشتمل بینچ کی سماعت کے دوران استعمال کیا جائے گا جو ملک کے آئین کی تشریح سے متعلق معاملات کی سماعت کرے گا۔

وکلا کی طرف سے بڑے پیمانے پر سراہی گئی حالیہ کوشش میں انڈین عدلیہ کو جدید بنانے اور کمرہ عدالت کی کارروائیوں کے لیے زیادہ شفافیت اور جواب دہی کے لیے جیسنگ کی طرف سے دی گئی تجاویز کو شامل کیا گیا ہے۔

جیسنگ نے یہ بھی تجویز کیا کہ عدالتی سماعتوں کی لائیو سٹریمنگ کے لنکس کاز لسٹ (سماعت کے منتظر مقدمات کی فہرست) پر دستیاب ہوں۔

ضلعی عدالتوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک، انڈیا کا نظام انصاف بدنام زمانہ طور پر سست ہے، یہ انتہائی زیادہ تعداد میں زیر التوا کیسز کا ایک نتیجہ ہے، جسے پہلے خود سپریم کورٹ کے جج بھی نمایاں کر چکے ہیں۔

گذشتہ برس اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا تھا کہ انڈیا کی نچلی عدالتوں میں چار کروڑ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں اور صرف ’فی دس لاکھ کی آبادی پر 20 جج ہیں، جو کہ قانونی چارہ جوئی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے نمٹنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔‘

پولیس معمول کے مطابق قبول کرتی ہے کہ زیادہ معمولی مقدمات عدالتوں کے ذریعے کبھی بھی نہیں چلیں گے، بجائے اس کے کہ وہ خود انصاف  کر دیں، چاہے وہ ثالثی کے ذریعے ہو یا محض مشتبہ افراد پر تشدد اور پھر شکایات درج کرنے سے انکار کر کے۔ اور حتیٰ کہ انتہائی سنگین اور ہائی پروفائل جرائم کو بھی کسی نتیجے پر پہنچنے میں برسوں لگتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ لائیو سٹریمنگ اور ٹرانسکرپشن کی سہولیات کا عدالتی عمل کو تیز کرنے پر فوری اثر نہیں ہو سکتا، لیکن شفافیت میں اضافہ،  نظام میں تاخیر سے پیدا ہونے والے عدم اعتماد کو کچھ حد تک کم کر سکتا ہے۔

دہلی میں واقع انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے تنمے سنگھ نے رسائی اور اعتماد سازی کے معاملے میں اسے ایک ’بڑا اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بہت سے کیسز ہیں جو عوامی دلچسپی اور عوام کی توجہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، چاہے آپ اس میں براہ راست مدعی نہ بھی  ہوں۔

’ایسے کیسز ہیں جن کی عوام پیروی کرنا چاہتے ہیں یا یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان میں کیا ہو رہا ہے، چاہے وہ فریقین میں نہ بھی ہوں ۔ اور نہ صرف حتمی حکم، بلکہ عدالتی سماعت کے دوران ہونے والی کارروائیوں کا ریکارڈ بھی رسائی کے لیے بہت اچھا ہے۔ یہ اعتماد سازی اور شفافیت کے لیے بھی بہت اچھا ہے۔‘

اس کی سفارش کیے جانے کے تقریباً چار سال بعد، گذشتہ برس سپریم کورٹ نے اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا کی الوداعی تقریب کو لائیو سٹریم کیا۔

 ایک ماہ بعد، انہوں نے پہلی بار کیس کی کارروائی کو لائیو سٹریم کیا، جس کو انڈیا  کی فقہ میں ایک نئے دور کے طور پر سراہا گیا۔

انہوں نے کہا، ’وکلا اور جج اکثر ہلکے پھلکے انداز میں تبصرے کرتے ہیں‘، اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہ لینے کا طریقہ صرف اس صورت میں ہے جب آپ کو تفصیلات تک رسائی حاصل ہو۔

’پورے ٹرانسکرپٹ کی دستیابی، میرے خیال میں درحقیقت کسی بھی آف دی کف ریمارکس کے لیے سیاق و سباق فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جو بعد میں نمایاں ہوں گے۔‘

حتیٰ کہ قانونی صحافی بھی ٹرانسکرپٹ تک رسائی کو مانتے ہیں۔

لائیو لا ویب سائٹ کے ایڈیٹر منو سبیسچین کہتے ہیں، ’اس کا ایک بڑا فائدہ ہے کیونکہ یہ ایک مستقل عدالتی ریکارڈ کے طور پر رہے گا۔

’بعض اوقات، اس بارے میں کچھ تنازع ہوسکتا ہے کہ آیا اس نکتے پر بحث نہیں کی گئی تھی یا نہیں۔ کوئی کبھی  بھی ریکارڈ کی تصدیق کرا سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے کہ صحیح دلیل کیا تھی۔ اور چونکہ ریکارڈ خود عدالت کے پاس ہے اس لیے یہ مستند ہے۔

چیف جسٹس نے ٹیکنالوجی کی محدودیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’ چونکہ ٹرانسکرپشن AI سے تیار کی جائے گی تو جب دو یا دو سے زیادہ وکلا بیک وقت بحث کریں، تو مسئلہ ہوسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس تکنیکی ماہرین ہیں جو بعد میں آوازیں صاف کر دیں گے۔ ’سماعت ختم ہونے کے بعد، وکلا کو جانچ کے لیے ان کے دلائل کی کاپیاں بھی دی جائیں گی۔‘

سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر ریکارڈنگ سافٹ ویئر کسی لفظ کو غلط سمجھتا ہے، وکیل کو دلائل کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کی اجازت دینے سے دیگر ٹائپوگرافیکل غلطیوں کو درست کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

’لیکن فی الحال مجھے یقین نہیں ہے کہ جائزے کا عمل بالکل کیسے کام کرے گا اور جائزہ لینے کا دائرہ کیا ہے۔‘

’لہذا جو بھی ہو یہ کچھ ابتدائی مرحلے جیسا ہوگا جیساکہ [ٹائپوگرافیکل غلطی کو درست کرنا] یا پھر ان آف دی کف ریمارکس کو نکالنے کا موقع ملے گا، میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہے لیکن ہمیں اس کے نفاذ میں ابھی تک صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’کسی بھی طرح سے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کے دلائل کو بہتر بنانے کا موقع ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تحریری گذارشات اور زبانی گذارشات کی بنیاد پر جاری رہے گا جو کمرہ عدالت میں کی جاتی ہیں۔‘

دنیا بھر کی عدالتوں نے طویل عرصے سے مقدمے کی سماعت کے دوران کیمروں کو اندر جانے کی اجازت دینے کی مزاحمت کی۔

انڈیا واحد ملک نہیں ہے جو لائیو سٹریمنگ اور ٹرانسکرپشن کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ کی سپریم کورٹ نے 2019 میں منتخب مقدمات کی لائیو سٹریمنگ کی بھی اجازت دی اور درخواست گزار کو اجازت دی کہ وہ کمرہ عدالت کی کارروائی کا ٹرانسکرپٹ طلب کرے اگر سماعت ریکارڈ کی جائے۔

کینیا کی سپریم کورٹ، جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت، برازیل کی سپریم فیڈرل کورٹ اور کینیڈا کی سپریم کورٹ بھی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیتی ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ کارروائی کے متن کی نقل فراہم کرتی ہے اور ایک ہفتے کی تاخیر کے ساتھ کارروائی کی صرف آڈیو اپ لوڈ کرتی ہے۔

 بزنس سٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق، آسٹریلیائی سپریم کورٹ کی طرف سے بھی اسی طرح کا متضاد طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو اپنی ویب سائٹ پر مکمل عدالتی مقدمات کی سماعت کو تقریباً ایک دن کی تاخیر سے چلاتی ہے۔

انڈین قوانین لائیو سٹریم میں 10 منٹ کی تاخیر کی تجویز کرتے ہیں۔ تاخیر کا مقصد بظاہر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غیر متوقع واقعات جیساکہ حساس معلومات میں ترمیم کی جا سکے۔

لیکن مخالفین کا استدلال ہے کہ کمرہ عدالت کی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ ججوں اور وکلا کی گرانڈ سٹینڈنگ کا باعث بن سکتی ہے۔

اس تشویش کا اظہار امریکہ  کے 17ویں چیف جسٹس جان رابرٹس نے بھی کیا تھا۔

انہوں نے 2011 میں کہا، ’بدقسمتی سے، ہم کمرہ عدالت میں چند سو لوگوں کے ساتھ گرانڈ سٹینڈنگ میں پڑ جاتے ہیں، مجھے فکر ہے کہ اس کا کیا اثر پڑے گا۔‘

تقریباً ایک دہائی بعد، وکلا محسوس کرتے ہیں کہ زیادہ عوامی اہمیت کے مقدمات ہمیشہ میڈیا کی توجہ حاصل کرتے رہے ہیں۔

سنگھ کہتے ہیں، ’میرے خیال میں وکلا اور جج بالآخر پیشہ ور ہوتے ہیں۔ ان پر کیمرہ رکھنے سے ان کا زیادہ دھیان بٹنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ پہلے سے ہی – بالخصوص سپریم کورٹ میں - بہت سارے مقدمات پر بحث ہوتی اور سماعت کی جاتی اور ایسے فیصلے لکھے جاتے ہیں جن میں عوامی دلچسپی بہت زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ ان تمام مختلف تکنیکی آلات سے بھی پہلے۔ جو اب ہمارے پاس ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا