انڈیا ایشیا کے سب سے بڑے فضائی شو میں کوئی سودا نہ کر سکا

دہلی میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے فیلو سوشانت سنگھ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انڈیا گذشتہ سالوں کی طرح اس ایڈیشن میں بھی کسی بڑے معاہدے پر دستخط نہیں کر سکا۔

انڈین فضائیہ کی سوریا کرن ایروبیٹکس ٹیم 13 فروری 2023 کو بنگلورو کے یلہانکا ایئر فورس اسٹیشن پر ایرو انڈیا 2023 ایئر شو کے 14ویں ایڈیشن کے افتتاحی دن کے دوران مظاہرہ کر رہی ہے (اے ایف پی)

جنوبی شہر بنگلورو (سابقہ بنگلور) میں انڈیا کے بہترین فضائی اڈوں میں سے ایک یلہانکا ایئر فورس سٹیشن کی طرف جانے والی سڑکوں پر وزیراعظم نریندر مودی اور ملک میں تیار کیے گئے ہلکے جنگی طیارے تیجس کے بڑے بڑے بل بورڈز لگے ہوئے ہیں۔

پانچ دنوں پر محیط ایشیا کا سب سے بڑا ایئر شو گذشتہ ہفتے بہت دھوم دھام سے شروع ہوا، جس میں انڈیا کے امریکہ اور فرانس جیسے مغربی اتحادیوں کی موجودگی نمایاں تھی۔

ان ملکوں نے اپنے جدید ترین لڑاکا طیاروں کی نمائش کی، جن میں  ایف پینتیس، ایف سولہ اور سپر ہورنیٹ، بی بی ون بی بمبار اور رفال طیارے شامل تھے۔

ایرو انڈیا جس کی ٹیگ لائن ہے ’ایک ارب مواقعے کا رن وے‘ میں برطانیہ، اسرائیل اور برازیل نے بھی شرکت کی۔ ان ملکوں نے جدید ترین فوجی پلیٹ فارمز اور ہتھیاروں کے نظام نمائش میں رکھے۔

ایسا لگا کہ ہتھیاروں کے کچھ سنجیدہ معاہدوں پر دستخط کرنے کے سٹیج تیار ہے جس میں دنیا کے سب سے بڑے دفاعی درآمد کنندگان میں سے ایک ملک انڈیا ایسے وقت میں ہتھیاروں کے ممکنہ سپلائرز کا خیر مقدم کر رہا ہے جب اسے اپنی سرحدوں پر خاص طور پر چین کی طرف سے اہم سکیورٹی دباؤ کا سامنا ہے۔

اس کے باوجود آخر میں ایئر شو کسی اہم معاہدے پر دستخط کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔

کئی دہائیوں سے دفاعی درآمدات کے معاملے میں انڈیا کا سب سے اہم اتحادی روس کی موجودگی نسبتاً غیر نمایاں تھی۔ اس نے ہتھیار برآمد کرنے والی سرکاری کمپنی روسوبورون ایکسپورٹ کو ایک اسٹال کے لیے بھیجا تا کہ پانچویں جنریشن کا فوجی سازوں سامان مثال کے طور پر ایس یو۔ 57 ای ملٹی رول لڑاکا طیارے، ایس یو۔ 35 ، ایس یو 30، اور لڑاکا مگ 35 ڈی طیارے نمائش میں رکھے جا سکیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی طیارہ انڈیا کے آسمان پر اڑتا دکھائی نہیں دیا۔

نئی دہلی میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ (سی پی آر) کے سینئر فیلو سوشانت سنگھ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ایک زرخیز مارکیٹ کی حیثت سے انڈیا کی ساکھ کو دیکھتے ہوئے اس کا ایئر شو ہمیشہ دنیا کے دفاعی سازوں سامان تیار کرنے والے سب سے بڑے ملکوں اور نجی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ اس سال کے ان طیاروں نے بنگلورو کے آسمان کو کئی دن تک بھرے رکھا لیکن جس کی ایئر شو میں نمائش کی گئی، اس کا چین اور پاکستان جیسے دشمنوں سے نمٹنے کی انڈیا کی حقیقی دنیا کی صلاحیت پر بہت کم اثر پڑتا ہے۔

سنگھ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے گذشتہ کئی سالوں میں ایرو انڈیا کے ذریعے بڑے سودے ہوتے نہیں دیکھے۔ ایرو انڈیا کی وجہ سے انڈیا اور اس کے کسی بھی شراکت دار کی طرف سے کسی بھی بڑے معاہدے پر دستخط نہیں کیے گئے۔ یہاں تک کہ اس ایڈیشن میں بھی نہیں۔ انڈیا نے رفال طیاروں کی فراہمی کا فرانس کے ساتھ  سب سے بڑا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے پر کھلے ٹینڈر کی بنیاد پر دستخط کیے گئے جو 2004-2005 میں یو پی اے انتظامیہ (کانگریس کی زیر قیادت سابق حکومت) نے جاری کیا تھا۔‘

یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) ایک مخلوط انتظامیہ ہے جس کی سربراہی کانگریس کے پاس ہے اور اب وہ وزیراعظم نریندر مودی کی بڑی اپوزیشن ہے۔

سوشانت سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنے 75 سالوں میں کبھی امریکہ سے ایک بھی لڑاکا طیارہ نہیں خریدا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس شو کا انڈیا کی فوجی طاقت کے اظہار پر بھی براہ راست کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ نمائش زیادہ تر خریداروں اور بیچنے والوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔

سی پی آر کے اہلکار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں تک کہ ایسی صورت حال کے لیے جس میں چین اور انڈیا کے درمیان 2020 سے بڑھتی ہوئی سرحدی جھڑپوں اور زمین پر قبضے کے الزامات کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے، مودی انتظامیہ کو وہی کرنا پڑے گا جو اس کی فہرست میں پہلے سے موجود ہے۔

ان میں بڑے پیمانے پر سوویت دور کا لڑاکا جیٹ بیڑا سخوئی، ایس یو۔ 30، مگ۔21 اور مگ۔29 شامل ہیں۔ ساتھ ہی فرانسیسی ڈسالٹ رفال بھی شامل ہیں جو انڈیا کے پرانے بیڑے پر کافی ہنگامہ آرائی کے بعد شامل کیے گئے تھے۔

لیکن یہ اس کے مطابق ہے جو کچھ انڈیا نے سفارت کاری کے اپنے اصولوں کے طور پر بنایا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے ملک اس کے معاملات میں مداخلت کریں۔

سوشانت سنگھ کے بقول: ’ہم ایف۔35 کو بنگلور آتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن حقیقت میں کیا ہوتا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ چین کا انڈیا کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بننے کی صورت میں امریکہ کل (انڈیا کو) ایف۔35 دے دے گا۔ بلکہ انڈیا کو اس کے پاس س موجود ہتھیاروں سے ہی لڑنا پڑے گا۔ یہ وہ تقاضہ ہے جس کا انڈیا نے تاریخی طور پر سامنا کیا ہے۔ ہم اس طرح سے معاملے کا خاتمہ چاہتے  ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آزاد دفاعی تجزیہ کار انگد سنگھ کا کہنا ہے کہ پانچ روزہ ایوی ایشن میراتھن کی نمایاں خصوصیت امریکہ کی شاندار شرکت ہے، جو ضروری نہیں کہ سب سے بڑی ہو، لیکن یقینی طور پر اس کے سٹیلتھ طیاروں اور بمباروں کے ساتھ سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔

انڈین فضائیہ کے ایک ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ انڈیا ’فی الحال‘ ایف۔35 حاصل کرنے پر غور نہیں کر رہا  لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایرو انڈیا میں پہلی بار دو ایف۔35 طیاروں کی نمائش نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کی علامت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ظاہری پیمانے اور اسے ملنے والی تمام تر تشہیر کے باوجود، انڈیا کا ایوی ایشن شو دوسرے غیر ملکی دفاعی نمائشوں کی طرح  نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں: ’یہاں تک کہ سنگاپور، دبئی، ملائیشیا، ابوظہبی، پیرس جیسے تمام دفاعی شوز میں زیادہ کاروبار اور معاہدوں پر دستخط ہوتے نظر آتے ہیں، تو اس پیمانے کے اعتبار سے (ایرو انڈیا) شو خاصا غیر نمایاں تھا۔‘

انگد سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا کو اپنے ایئر شوز کو کاروبار کے حوالے سے اول، سفارت کاری کو دوم اور فوجی لحاظ سے آخری بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال کا ایڈیشن تعلقات بنانے کی مشق کی طرح کہیں زیادہ محسوس ہوا۔

لڑاکا طیاروں کے سودوں کا فقدان انڈیا کے لیے ایک نازک موڑ ہے، جس کی فضائیہ کے پاس کُل 30 لڑاکا سکواڈرن ہیں، جو سب سے کم تعداد ہے، حالاںکہ اسے 42 سکواڈرنز کی اجازت ہے۔

دسمبر میں ائیر چیف مارشل وی آر چوہدری نے کہا کہ انڈین فضائیہ کو جنگی تیاری کی مطلوبہ سطح کو برقرار رکھنے کے لیے 4.5 جنریشن کے طیاروں کے پانچ سے چھ سکواڈرنز کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو جوہری طاقتیں چین اور پاکستان انڈیا کے ہمسائے ہیں۔

اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ ’فائٹر سکواڈرن اور فوجی طاقت میں اضافے کے لیے وسائل کی کمی جیسی کچھ بڑی کمزوریاں ہیں جن کو ہماری جنگی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جانا چاہیے۔‘ عہدے دار نے اس جانب اشارہ کیا کہ انڈیا کا ’جغرافیائی و سیاسی پڑوس غیر مستحکم اور غیر یقینی‘ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ایئر شو ان صلاحیتوں کو بڑھانے میں کردار ادا کرنا شروع نہیں کرتا جس کی انڈیا کو فوری ضرورت ہے، اس کا ملک کی فوجی صلاحیتوں پر بہت محدود اثر پڑے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا