کامران شاہد نے 1971 پر محبت کی کہانی کیوں لکھی اور فلمائی؟

1971 کے حساس موضوع پر فلمسازی کے سوال پر کامران شاہد کا کہنا تھا کہ اس فلم کے سکرپٹ کو آج تک، فوج، آئی ایس پی آر یا کسی مقتدر ادارے نے نہیں دیکھا۔

1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جنم لینے والی محبت کی یہ کہانی ’ہوئے تم اجنبی‘ کامران شاہد کی بطور ہدایت کار پہلی فلم ہے۔

کامران شاہد کا نام پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے لوگ ایک کرنٹ افئیرز کے پرائم ٹائم اینکر کے طور پر جانتے ہیں۔ وہ ان دنوں دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور رات آٹھ بجے کا شو کرتے ہیں۔ اکثر لوگ انہیں پاکستان کے نامور ترین اداکار فلم سٹار شاہد کے صاحبزادے کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔

یہ بات بہت ہی کم افراد جانتے ہیں، کہ کامران شاید نے کرونا سے پہلے کئی سال ایک فلم ’ہوئے تم اجنبی‘ کا سکرپٹ لکھنے اور پھر اسے بنانے میں لگا دیے، اور اب وہ فلم رواں برس عید الفطر پر پیش کی جارہی ہے۔

’ہوئے تم اجنبی‘ ڈھاکہ یونیورسٹی میں جنم لینے والی محبت کی داستان ہے جو 1971 میں رونما ہوئی جب سیاسی تناؤ، ملٹری آپریشن اور پھر جنگ میں مشرقی پاکستان جھلس رہا تھا۔ ’ہوئے تم اجنبی‘ کے مصنف اور ہدایتکار کامران شاہد کے مطابق یہ فلم محبت کی کہانی ہے جو 1971 میں جنم لیتی ہے، یہ مکمل رومانوی فلم ہے۔

اپنے حالیہ دورہ لاہور میں میری کوشش تھی کہ کامران شاہد سے ملاقات کرکے اس فلم پر بات کی جائے کیونکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کیمرے کے آگے والا، کیمرے کے پیچھے جا کر کام کرے۔

انڈیپینڈنٹ اردو کا پہلا سوال یہ تھا کہ آخر کیمرے کے پیچھے گئے کیوں؟ اس پر کامران شاہد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک کہانی لکھی جو 1971 کے سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں ایک رومانوی کہانی تھی، جبکہ پاکستان میں 71 کے واقعے سے جڑے معاملات بہت پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ  ’اس لیے سکرپٹ تو تیار ہوگیا، مگر اس فلم کی ہدایت کاری کے لیے ہر ایک تیار نہیں ہوتا، پھر سوچا کہ جب خود ہی لکھا ہے تو خود ہی میدان میں اتر جاتے ہیں۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کہ فلم سازی میں کوئی باضابطہ تربیت نہیں ہے، اور ایسے میں پیریڈ فلم بنانا کافی زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایک ایک چیز کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

فلم کی کلر گریڈنگ ہی میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں، اداکاروں کے کپڑوں سے لے کر ان کے بالوں کا انداز تک، سب کچھ دیکھنا پڑتا ہے، اس لیے یہ مشکل اور کافی مہنگا کام ہے۔

اس معاملے پر کامران شاہد نے شکایت کی کہ پاکستان میں فلم سازوں کے لیے کسی قسم کی سہولتیں موجود نہیں، جن فلمسازوں کی فلم چل جاتی ہے ان کو بھی کئی کئی سال پیسے نہیں ملتے۔

اس موضوع کے انتخاب پر کامران شاہد نے کہا کہ پاکستان میں 1971 کے واقعات کے تناظر میں بہت سے گوشے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن اگر 1971 کے واقعے پر ہی فلم بنائی جاتی تو عوام کی دلچسپی شاید نہ ہوتی، ’ہوئے تم اجنبی‘ ایک مکمل تفریحی فلم ہے جس میں تقریباً گیارہ گانے ہیں۔ یہ سقوط ڈھاکہ، رومان، اور گانوں کا ایک امتزاج ہے۔

مرکزی کرداروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میکال ذوالفقار اور سعدیہ خان، دونوں نے آج تک ایسے کردار نہیں کیے ہیں۔ وہ دونوں اس فلم میں وہ نظامال دین اور زینت نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ محمود اسلم صاحب کو شیخ مجیب الرحمان کے کردار میں اس لیے لیا کہ وہ بڑے اداکار ہیں، پھر اندرا گاندھی کے کردار میں ثمینہ پیرزادہ ہیں، سہیل احمد صاحب کا کردار بھی کمال ہے۔

کامران شاہد نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ عدنان جیلانی نے ذوالفقار علی بھٹو کو کردار ادا کیا ہے جو اگرچہ ایک ہی سین ہے مگر دلچسپ ہے جس میں ان کا مکالمہ شیخ مجیب سے ہوتا ہے۔

اس فلم میں اپنے والد شاہد صاحب کو ہدایات دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کام کیا ہے اور کوئی مسئلہ اس لیے نہیں ہوا کیونکہ انہیں اپنے سکرپٹ پر اعتماد تھا، اور اس کے مطابق سارا کام کیا گیا۔

’ہوئے تم اجنبی‘ کے گانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں عابدہ پروین نے بھی گایا ہے۔ کامران شاہد کے مطابق ان کی شرط یہ تھی کہ یہ گانا کسی ہیروئین پر لپ سنک نہیں ہو گا، اور فلم میں موقع ایسا ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

اس میں علی ظفر اور عاصم اظہر نے بھی گایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم کے باکس آفس کے بارے میں اپنی توقعات بتاتے ہوئے کہا کامران شاہد نے بتایا کہ ’ہوئے تم اجنبی‘ میں سارا پیسہ شاہد صاحب کا لگا ہے، جو بس استعمال ہو گیا، اب جتنا بھی واپس مل گیا شکر ہے کیونکہ یہ فلم پیسے کمانے کے لیے نہیں بنائی گئی، بلکہ شوق سے بنائی گئی ہے، جس میں حساب اتنا زیادہ نہیں رکھا گیا ہے۔

’اس فلم کو عید الفطر پر لگانے کا فیصلہ اس کے ڈسٹری بیوٹر کا ہے جو ندیم مانڈوی والا ہیں۔‘

1971 کے حساس موضوع پر فلمسازی کے سوال پر کامران شاہد کا کہنا تھا کہ اس فلم کے سکرپٹ کو آج تک، فوج، آئی ایس پی آر یا کسی مقتدر ادارے نے نہیں دیکھا۔ ’میں نے جو لکھا، وہی بنا دیا، نہ کسی سے پوچھا، نہ دکھایا، اور نہ ہی کسی نے مجھ سے ایسا مطالبہ کیا، اگر یہ سکرپٹ کہیں سے آتا تو کم از کم میں یہ فلم نہیں بناتا، اس کا ایک ایک لفظ میرا اپنا ہے۔‘

اس فلم کی تیاری میں افواج کی مدد لینے کے بارے میں کامران شاہد نے بتایا کہ انہیں ٹینک اور کچھ دیگر سامان کی مدد فوج سے ملی ہے، جس کے لیے پہلے ان سے درخواست کی گئی تھی کہ کرائے پر دے دیے جائیں، جس پر معلوم ہوا کہ یہ ممکن نہیں، پھر مدد مانگی جو مل گئی اور یہ مدد پھر فوج نے نہیں کی، پاکستانی بحریہ کی جانب سے بھی مدد کی گئی ہے، بلکہ اس وقت پنجاب حکومت یعنی عثمان بزدار نے بھی بہت مدد کی تھی۔

اس فلم کی کامیابی کی کتنی امید ہے، اس پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا بہترین کام کیا ہے، باقی اللہ تعالیٰ اور عوام پر منحصر ہے کیونکہ سینیما کو ٹی وی کی طرح قابو میں نہیں کیا جا سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم