ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ رواں ہفتے کے آغاز سے شروع ہو گئی تھی لیکن گذشتہ دو روز کے دوران اس میں تیزی آئی ہے۔

27 جنوری 2023 کو کراچی کی منی ایکسچینج مارکیٹ میں ایک ڈیلر امریکی ڈالر گن رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں جمعرات کو اچانک تیزی سے اضافہ دیکھا گیا اور دن کے وسط تک انٹر بینک میں ایک ڈالر کی قدر 285 روپے تک پہنچ گئی جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت لگ بھگ 290 روپے سے زائد ریکارڈ کی گئی۔

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ رواں ہفتے کے آغاز سے شروع ہو گئی تھی لیکن گذشتہ دو روز کے دوران اس میں تیزی آئی ہے۔

اس سے قبل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 13.80 روپے اضافے کے بعد 280 روپے پر پہنچ گئی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بظاہر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے قرض کی نئی قسط پر ہونے والے مذاکرات مثبت پیش رفت نا ہونا ہے جس سے معاشی صورت حال سے متعلق ابہام پایا جاتا ہے۔

پاکستان پہلے  ہی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف سے گذشتہ ماہ اسلام آباد میں 10 روز تک ہونے والے مذاکرات کے بعد حکومت نے 170 روپے کے اضافی ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تاکہ عالمی مالیاتی ادارے سے معاملات جلد طے پا جائیں لیکن یہ معاملہ تاحال تاخیر کا شکار ہے۔

پاکستان کے مرکزی سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں حالیہ مہینوں میں ناصرف زرمبادلہ کے ذخائر بلکہ ترسیلات زر میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور بظاہر یہ صورت حال روپے پر دباؤ میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

 ادارہ شماریات نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک کے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں فروری میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 31.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو تقریباً 50 سالوں میں سب سے زیادہ سالانہ شرح ہے۔

بدھ کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 1.73 فیصد کمی ہوئی تھی اور ڈالر 266.11 روپے کا ہو گیا تھا۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک روپے کی قدر میں تقریباً 15 فیصد کمی ہوئی ہے جس سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر معاشیات ثنا توفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’آج روپے کی قدر میں جو کمی سامنے آئی ہے حالانکہ پاکستان تقریباً ساری شرائط پوری کر چکا ہے۔ آج مانٹری پالیسی بھی ہے جس میں شرح سود دو سے تین فیصد بڑھنے کے بھی امکان ہیں۔  ہم نے دیکھا بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

’آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول اگریمنٹ سائن ہونا ہے لگتا یہ ہے کہ عنقریب سائن ہو جائے گا لیکن جب تک نہیں ہوتا مارکیٹ میں غیر یقینی کا تاثر برقرار رہے گا۔‘

ان کے مطابق انٹر بینک اور غیر سرکاری ذرائع کے درمیان بہت بڑا فرق سامنے آرہا تھا جو معیشت کےلیے نقصان دہ تھا۔

’یہی وجہ تھی جو اس فرق کو ختم کرنے کے لیے روپے کی قدر کم کی گئی، پہلے تو یہی کوشش کی جائے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کا فرق ختم کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ معاہدے کے سائن ہونے کے بعد ہم بہتری کی طرف جا سکتے ہیں اور وقت کی بھی یہی ضرورت ہے کہ سٹاف لیول اگریمنٹ سائن ہو جائے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر اقدس افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کی ایکسچینج پالیسی میں زوال دیکھنے میں آیا ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی جو تعطل کا شکار ہے معیشت میں منفی اثرات کا باعث بن رہی ہے لیکن پاکستان اب تمام شرائط پر پورا اترا ہے اب کوئی وجہ نہیں رہتی آئی ایم ایف فنڈ بحال نہ کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت