قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق بتایا گیا کہ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کی ہوئی ہے اور اگر منصوبہ سال 2024 تک مکمل نہ ہوا تو ایران کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین محسن داوڑ کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کے حکام نے شرکت کی۔ خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کو پاک۔ایران تعلقات کے تناظر میں تجارت اور درپیش مسائل سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
اجلاس شروع ہوا تو کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق سوال کہ گیس پائپ لائن کب مکمل ہوگی، جس پر وزارتِ خارجہ کے حکام نے بتایا کہ ایران پر اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ نے بھی اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں اس لیے پاکستان کے لیے اس سلسلے میں کافی مشکلات درپیش ہیں۔
کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں وزارت خارجہ حکام نے بتایا کہ سال 2009 میں پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا گیا تھا تاہم اس وقت بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں تھیں جس پر کمیٹی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ قومی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے۔
حکام کے مطابق: ’اگر اقتصادی پابندیاں موجود تھیں تو معاہدہ ہی نہ کیا جاتا اور اگر کر لیا تھا تو اُس کو ضرور نبھایا جانا چاہیے۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا گیا کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران 80 ارب ڈالر کی اشیا دیگر ممالک کو برآمد کر رہا ہے۔ خاص طور پر انڈیا اور چین ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ بجلی، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی ایران سے 104 میگا واٹ سستی بجلی خرید رہا ہے اور مزید 100 میگا واٹ بجلی خریدنے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور ایران کے مابین کھانے پینے کی متعدد اشیا بشمول چاول، کینو، پستے اور دیگر اشیا کی باہمی تجارت بھی ہو رہی ہے۔
کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام متعلقہ ادارے رپورٹ پیش کریں اور بتائیں کہ اگر ایران پر اقتصادی پابندیاں نہ ہوں تو پاکستان اور ایران کی تجارت کا حجم کتنا ہوگا؟ اور اگر پاکستان ایران سے تیل برآمد کرنا شروع کر دے تو اس کے پاکستانی معیشت اور ادائیگیوں کے توازن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پاک ایران تعلقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے حکام وزارت خارجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ایرانی اس منصوبے میں تاخیر سے ناخوش ہیں۔
چیئرمین کمیٹی محسن داوڑ نے سوال کیا کہ اگر انڈیا، چین اور جاپان ایران سے تیل لے رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں لے سکتے، جس پر حکام وزارت خارجہ نے بتایا: ’ہم ایران سے تیل کی تجارت نہیں کرتے جو ممالک کرتے ہیں ان کی اپنی پالیسیاں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
داوڑ نے سوال کیا: ’انڈیا نے کلکتہ میں ایران سے تیل خریداری کے لیے ایک الگ بنک کھولا ہے ہم نے اس معاملے کو کئی بار اعلیٰ سطح اجلاس میں اٹھایا کہ ہم کیوں نہیں ایسا بنک بنا سکتے جو ریال اور تومان میں ڈیل کرے۔‘
حکام نے کہا: ’سادہ الفاظ میں ہم چونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے ہیں اس لیے تیل نہیں لے سکتے جبکہ انڈیا، چین اور جاپان آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیتے ہیں۔ ہماری تجارت میں سب سے بڑا مسئلہ بنکنگ چینل کا نہ ہونا ہے۔‘
خارجہ امور کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارت خارجہ اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد پاک-ایران گیس پائپ لائن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کریں اور رپورٹ پیش کریں۔
دونوں ممالک نے 1995 میں پائپ لائن کی تعمیر کے لیے ایک ابتدائی معاہدہ کیا تھا تاکہ پاکستان کو ایران سے قدرتی گیس درآمد کرنے میں مدد ملے۔
اس منصوبے میں انڈیا کو بھی شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاہم نئی دہلی کی انتظامیہ نے قیمتوں اور سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے 2009 میں منصوبے سے دوری اختیار کر لی تھی۔