مومل علی راجپوت اپنے ہی نام سے ایک یو ٹیوب چینل چلا رہی ہیں۔ آج کل ایک نجی موبائل نیٹ ورک کے ساتھ اشتراک میں ملک کے مختلف شہروں کے دیہاتوں میں جا رہی ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں خاص طور پر خواتین کو ڈیجیٹل دنیا سے متعارف کروا سکیں۔
مومل کی عمر 23 برس ہے اور بہاولپور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے ان کا تعلق ہے۔ مومل کو تقریباً ہر سال اپنے گاؤں سے ہجرت کرنی پڑتی تھی کیوں کہ سیلاب کا پانی ان کے کچے گھر کو ہمیشہ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا۔ مومل نے اپنی پڑھائی کچھ وقفے کے بعد دوبارہ شروع کی ہے اور وہ اب بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں۔
مومل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’میری کہانی شروع ہوتی ہے 2018 سے۔ زندگی میں کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جب آُپ سوچتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کیا جائے۔ ابو بیمار ہوئے تو میں اور میرا چھوٹا بھائی عقیدت ہم دونوں ہی گھر میں بڑے تھے باقی دو چھوٹے ہیں۔ اس وقت ہم کچھ کر ہی نہیں پا رہے تھے کیوں کہ ہماری پڑھائی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی اس سے ہم نے ابو کا علاج کروانے کی کوشش کی لیکن ہم اس طرح علاج نہیں کر پائے اور انہیں کچھ روز بعد ہی دوسرا دل کا دورہ پڑ گیا۔
’ہمارے مالی حالات ویسے ہی بہت زیادہ خراب تھے۔ امی کپاس چنتی تھیں اور ابو مزدوری کر کے جو بھی کماتے تھے اس سے گزر بسر ہوتی تھی۔ میں چوں کہ گھر کی بڑی تھی تو سوچا کچھ کروں۔ میں نے گھروں میں کام کرنا شروع کیا۔ ایک گھر میں جہاں میں کام کرتی تھی وہاں کی مالکن بہت اچھی تھیں انہوں نے مجھے سلائی سکھا دی۔‘
مومل کہتی ہیں کہ وہ سلائی کا کام بھی کرنے لگیں اور اس طرح کچھ پیسے کمانے لگیں جس سے کچھ گزر بسر شروع ہوئی اوراپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانا شروع کیا۔
’مجھے تو حالات کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنا پڑی لیکن میں انہیں پڑھانا چاہتی تھی۔‘
مومل نے بتایا کہ ان کی سب کوششوں اور محنت کے باوجود گھر کا گزارا مشکل سے پورا ہو رہا تھا کیونکہ مہنگائی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔
’میرا چھوٹا بھائی عقیدت باہر کی دنیا کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا تھا۔ ہم دونوں اکثر بیٹھ کر بات کیا کرتے تھے کہ گھر کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
’عقیدت کا ایک دوست بیرون ملک سے واپس آیا تو انہوں نے عقیدت کو اپنا نیا فون دکھایا اور انہیں یو ٹیوب کے بارے میں بتایا کہ اس کے ذریعے کس طرح ان کے دوست ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ اس دوست نے عقیدت کو مشورہ دیا کہ وہ بھی یو ٹیوب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔‘
مومل نے بتایا کہ پھر انہوں نے ایک سمارٹ فون خریدا۔
’جس دن موبائل آیا اسی دن عقیدت نے میری ایک ویڈیو بنائی۔ عقیدت نے مجھے کہا کہ میں گھر کے کام کرتی رہوں اور وہ وہی دکھائیں گے۔ ہمارے جیسے بھی گھر کے حالات ہیں ہم لوگوں کو وہی دکھائیں گے۔ بس پھر ہم نے اس ویڈیو میں بات چیت بھی شروع کر دی اور ساتھ ساتھ گھر کا کام بھی۔ عقیدت نے وہ ویڈیو اسی رات اپلوڈ کی۔ جیسے ہی ویڈٰو اپ لوڈ ہوئی اس کے بعد لوگوں کا بہت اچھا ردعمل آنا شروع ہو گیا اور اس پر 40 سے 45 ہزار ویوز آئے۔ اس ویڈٰیو پر لوگوں کے اچھے تبصرے بھی آئے اور برے بھی لیکن اچھے تبصروں نے ہماری بہت ہمت بندھائی کہ ہم آگے اور کام کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مومل نے بتایا کہ انہوں نے پھرہر روز پانچ سے سات منٹ کی ویڈیوز بنانی شروع کیں۔
مومل کہتی ہیں کہ چوں کہ ان کے والد نے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے لوگوں کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے اس لیے وہ کہتی ہیں کہیں کہ انہوں نے باپردہ ہو کر ویڈیوز بنائیں اور آج بھی وہ پردہ کر کے ویڈیو میں دکھائی دیتی ہیں۔
باوجود اس کے کہ مومل پردہ کر کے ویڈیو میں آتیں تھی، ان کے گاؤں کے لوگوں کی جانب سے شروع میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
’جب میرے والدین گھر سے باہر نکلتے تھے تو انہیں لوگ باتیں بناتے کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو نیٹ پر لانا شروع کر دیا ہے۔ پھر ایسا بھی ایک وقت آیا کہ لوگوں کی باتیں سن کر مجھے اتنا ذہنی دباؤ محسوس ہوا کہ میں نے اپنا یو ٹیوب چینل روک دیا یہاں تک کہ مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔‘
مومل کے بھائی عقیدت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لوگوں کا ردعمل مومل نے جو جھیلا مگر شاید میں نے ان سے زیادہ جھیلا کیوں کہ میں باہر نکلتا تھا لوگوں سے زیادہ ملتا جلتا تھا۔ بعض اوقات تو لوگوں سے ہاتھا پائی تک ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پھر اپنی رہاش گاؤں سے شہر میں منتقل کی۔‘
مومل نے بتایا کہ لیکن آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے کیوں کہ اب ان ہی کے علاقے کی کچھ لڑکیوں نے بھی اپنا یوٹیوب چینل بنایا ہے اور کچھ نے ان سے رہنمائی کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔
عقیدت نے بتایا کہ مومل کے چینل پر چلنے والی ویڈیوز کو بنانے سے لے کر ایڈیٹنگ تک سب کچھ وہی دیکھتے ہیں۔ ویڈیو بنانے کے لیے کوئی خاص سامان نہیں ہے بس موبائل پر ہی ویڈیو بناتے ہیں اور اس وقت ان دونوں کے تین چینلز ہیں جو کہ مونیٹائزڈ بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک موبائل نیٹ ورک نے مومل سے رابطہ کیا اور انہوں نےبتایا کہ انہوں نے ملک بھر کے مختلف دیہاتوں میں 47 شوز کرنے ہیں اور وہ مومل کو اس پراجیکٹ میں ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔
مومل نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے بتایا کہ اس میں وہ ایسے دیہاتوں میں جارہی ہیں جہاں سہولیات بہت کم ہیں لیکن لوگ کام کرنا چاہتے ہیں۔
’میری ہر روز دو تین ایسی خواتین سے ملاقات ہوتی ہے جن کہانی بالکل میرے جیسی ہے اور وہ کام کرنا چاہتی ہیں۔‘
نجی موبائل نیٹ ورک کمپنی کے مارکیٹنگ ہیڈ علی فہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہماری کمپنی نے دیہی ڈیٹا ایجوکیشن پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ہم نے اپنے صارفین کو ڈیجیٹل قابلیت کے ذریعے بااختیار بنانے کا ہدف بنایا ہے۔ دیہی ڈیٹا ایجوکیشن اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح ہمارا جاز سپر 4G ملک میں پورے ایکو سسٹم کو بااختیار بنا سکتا ہے۔‘
مومل کو اس پراجیکٹ کے لیے چننے کے حوالے سے علی فہد کا کہنا تھا: ’ہم ملک میں خواتین کے لیے تاریخی طور پر چند مواقع کو تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ ہی آبادی کے اس طبقے کو پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کی راہ پر مزید آگے لے جانے کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے سامعین کو اس بارے میں آگاہ کرنے کی ذمہ داری رکھتے ہیں کہ ڈیجیٹل ٹولز اور ٹیکنالوجی کس طرح ان کی زندگیوں میں انقلاب لا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مومل نے اپنی منفرد آواز اور نقطہ نظر کو دنیا کے ساتھ شیئر کر کے ایک چھوٹے سے یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنا نام بنایا ہے جو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ اپنے خاندان کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔ ہم اس کی کہانی سے متاثر ہوئے۔
علی فہد کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل اکانومی میں شرکت کے ذریعے، مومل اپنے خاندان کے لیے آمدنی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی اور زندگی کے مشکل حالات کے باوجود خود کو اوپر لائیں۔ اس کی کہانی ان خواتین کے لیے امید کی کرن کے طور پر کام کررہی ہے جو سماجی و اقتصادی قوتوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں، مومل انہیں ملک کی معیشت میں حصہ لینے کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
مومل علی راجپوت اب تک بلوچستان کے پی اور سندھ کے دیہاتوں کا سفر کر چکی ہیں۔ ان کی والدہ بھی اس سفر میں ان کے ساتھ ہیں۔ مومل کہتی ہیں کہ وہ اپنے والدین اور بھائی عقیدت کی شکر گزار ہیں جنہوں نے شدید ردعمل کے باوجود ان کا ساتھ دیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ دور دراز دیہاتوں میں بسنے والی خواتین کو بھی ترقی کے بھرپور مواقع ملیں تاکہ وہ بھی خود کفیل ہو سکیں۔