ایسا درد جس کا مداوا نہیں 

نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے گذشتہ روز عدالت میں کہا کہ ’نور کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔‘

اسلام آباد میں جولائی 2022 کو نور مقدم کے قتل کے ایک سال بعد مختلف مقامات پر شمع روشن کی گئی تھیں (فائل فوٹو اے ایف پی)

پاکستان کے سابق سفیر شوکت مخدوم لگ بھگ ڈیڑھ برس سے عدالتوں میں اپنی بیٹی نور مقدم کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 

27 سالہ نور مقدم کو جولائی 2021 میں اسلام آباد کے پوش علاقے میں واقع ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا۔ قتل سے متعلق جو تفصیلات تفتیش کے دوران سامنے آئیں وہ دل دہلا دینے والی تھیں۔ 

بیٹی کا قتل اور پھر انصاف کی جنگ کوئی آسان کام نہیں لیکن بظاہر پرسکون نظر آنے والے شوکت مخدوم بوجھل دل کے ساتھ مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

سابق سفارت پیر کی صبح ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے، جہاں اطلاعات تھیں کہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ کی جانب سے فیصلہ سنایا جانا تھا لیکن فیصلہ سہ پہر کو سنایا گیا۔ 

نور مقدم کے خاندان سے اظہار یکجہتی کے لیے بڑی تعداد میں لوگ کمرہ عدالت میں موجود تھے اور کوئی نشست خالی نہیں تھی۔  نور مقدم کے والد اور ان کے بھائی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے لیکن آپس میں کوئی بات نہیں کر رہے تھے اور بظاہر عدالتی فیصلہ سننے کے لیے بے چین تھے۔ 

نور مقدم کے والد کی گفتگو سننے کے لیے کلک کیجیے 

فیصلہ سنائے جانے سے قبل جب عدالتی کارروائی  میں وقفہ آیا تو عدالت کے احاطے سابق سفارت کار سے گفتگو کا آغاز ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک طویل جنگ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں کسی لڑکی کے ساتھ وہ نہ ہو جس کا سامنا ان کی بیٹی اور خاندان کو کرنا پڑا۔ 

آنکھوں میں چمک اور ہلکی بھاری آواز میں ان کا کہنا تھا کہ ’نور ان کی بہت لاڈلی بچی تھی‘ جسے دوسروں کا بہت خیال رہتا تھا۔ 

شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ ’نور کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالتی فیصلے اور سزائیں 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے نہ صرف ذیلی عدالت کی طرف سنائی گئی سزا کو برقرار رکھا گیا بلکہ ریپ کے جرم میں سنائی گئی 25 سال قید کی سزا کو بھی موت کی سزا میں بدل دیا۔ 

27 سالہ نور مقدم کو جولائی اسلام آباد کے پوش علاقے میں واقع ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت 24 فروری، 2022 کو ظاہر جعفر کو تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔ 

عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا تھا جبکہ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال کی قید سنائی تھی۔ 

ظاہر جعفر اور شریک مجرمان نے ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزاؤں کو مارچ 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن عدالت نے تمام سزاؤں کو بحال رکھتے ہوئے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں عمر قید کی موت کی سزا میں بدل دیا۔ 

نور مقدم کے قتل میں پولیس نے 12 ملزمان کو تفتیش میں شامل کیا تھا جس میں ظاہر جعفر کے علاوہ ان کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار بھی شامل تھے۔ 

جب کہ افراد میں تھیراپی ورکس کے ملازمین اور ظاہر جعفر کے گھر میں کام کرنے والا باورچی بھی شامل تھا۔ لیکن ماسوائے ظاہر جعفر اور ان کے گھر میں کام کرنے والے مالی اور چوکیدار کے باقی ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ