خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کوہستان کے علاقے پٹن میں پولیس کے مطابق گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے پانچ بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 10 افراد جل کر ہلاک ہوگئے ہیں۔
ریسکیو1122 لوئر کوہستان کے ضلعی ایمرجنسی افسر ساجد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’ یہ ایک کچا گھر تھا جس میں خاندان کے 13 افراد رہائش پذیر تھے اور رات کے وقت آگ لگی تھی جس سے دھواں پھیلا ہوا تھا۔‘
ساجد علی نے بتایا کہ ’دھویں کی وجہ سے رہائش پذیر افراد کو باہر نکلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور چوں کہ کچا گھر تھا اور لکڑ اس میں زیادہ تھی تو آگ کی شدت بھی اسی وجہ سے زیادہ تھی۔‘
ساجد علی کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کہہ رہے ہیں کہ ریسکیو 1122 کی جانب سے بروقت رسپانس نہ ہونے کی وجہ سے آگ کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور گھر کے سربراہ محمد نواب اپنے بچوں اور دیگر افراد کو آنکھوں کے سامنے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرسکے۔
مقامی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریسکیو کے ایمرجنسی نمبرز پر بھی رابطہ کیا گیا تھا لیکن کوئی بھی کال نہیں اٹھا رہا تھا اور اس وجہ سے مقامی افراد کو خود ریسکیو کے دفتر جانا پڑا۔
اسی حوالے سے جب لوئر کوہستان پولیس سے رابطہ کیا گیا تو پولیس کے ترجمان میر محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رسپانس بروقت تھا تاہم لوئر کوہستان کے مختلف علاقوں میں پانی کا مسئلہ ہوتا ہے تو ریسکیو کی گاڑیوں کو پانی بھرنے میں وقت لگا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ریسکیو دفتر کے قریب واپڈا کا پٹن ڈیم واقع ہے اور ریسکیو کی فائر بریگیڈ گاڑی وہاں سے پانی بھرنے گئی تھی جس میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا تھا۔‘
میر محمد ک مطابق اس واقعے میں نواب نامی شخص کی اہلیہ، بہو، پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہلاک ہوگئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’آگ لگنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی تاہم شارٹ سرکٹ سے اس لیے نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس علاقے میں بجلی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔‘
اسی حوالے سے ریسکیو کے ترجمان ساجد علی نے بتایا کہ ’مقامی افراد کی جانب سے اگر یہ کہا جارہا ہے تو شاید نمبر ملانے میں ان کو دشواری آگئی ہو لیکن جہاں تک پانی بھرنے کا مسئلہ ہے تو یہاں پر فائر بریگیڈ گاڑیوں کو بھرنے کے لیے پانی کا کوئی خاص پوائنٹ موجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر موقعوں پر ہم واپڈا کے پٹن ڈیم سے پانی بھرتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے وہاں جانے اور گیٹ پر چیکنگ وغیرہ میں وقت لگتا ہے تو اس واقعے میں رسپانس دینے میں 15 سے 20 منٹ کا وقت لگا تھا۔‘
آگ لگنے کی وجوہات کے بارے میں جب ساجد سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی افراد نے ہمیں بتایا کہ گوبر جلایا گیا تھا جس وجہ سے آگ نے پورے گھر کو لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ گھر 15 کمروں پر مشتمل کچا مکان تھا۔‘
علاقے کے لوگوں نے کیا دیکھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حضرت عباس کا تعلق پٹن سے ہے اور یہ واقعہ ان کے گھر کے قریب پیش آیا تھا اور وہ رات کو موقع پر بھی موجود تھے۔
انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ’رات کو تقریبا دو بجے ہمیں پتہ چلا کہ قریبی گھر میں آگ بھڑک اٹھی ہے تو گاؤں والے جمع ہونا شروع ہوگئے اور پہلے ریسکیو کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن کال نہیں لگی۔
’ہم ریسکیو کے دفتر گئے اور ان کو آگ لگنے کی اطلاع دی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ فائر بریگیڈ گاڑی میں پانی نہیں ہے تو اس کو بھر کر آئیں گے۔‘
عینی شاہد نے بتایا کہ ’اس واقعے میں بچ جانے والے محمد نواب کی اہلیہ اور بہو بھی ہلاک ہوگئیں جبکہ دوسری فیملی میں ایک بیمار شوہر کو انکی اہلیہ نے بچایا اور خود واپس اندر جا کر بچوں کو بچانے کی کوشش کرنے لگیں۔‘
عباس نے بتایا: ’جوں ہی یہ خاتون اندر گئیں تو شدت اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ خاتون کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا اور پھر باہر نہ نکل سکیں۔ قیامت کا سماں تھا اور بچے چیخ و پکار کر کے مدد کی لیے منتیں کر رہے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک غریب خاندان ہے اور خچر چلا کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور اس واقعے میں ان کے پانچ چھ خچر بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔