لندن پولیس میں مزید کتنے ریپسٹ اور قاتل ہیں؟

برطانوی دارالامرا کی رکن بیرونس لوئس کیسی نے میٹ ڈیپارٹمنٹ یا لندن پولیس سے ’خود کو تبدیل کرنے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’بحیثیت عوام یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم خود کو پولیس سے بچائیں۔ یہ پولیس کا کام ہےکہ وہ ہمیں عوام کی حیثیت سےبچائیں۔‘

لندن میں سارہ ایورارڈ نامی خاتون کے قتل کے بعد شروع کیے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ میٹروپولیٹن (لندن) پولیس میں معاملات سے ’صرف نظر کرنے کی روایت‘ نے حملہ آوروں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

جائزے کے مطابق اس فورس میں ادارہ جاتی طور پر نسل پرست، خواتین مخالف اور ہم جنس پرستوں سے نفرت اور جنسی تشدد کے متاثرین کا بہت کم احترام پایا جاتا ہے۔

برطانیہ کے دارالامرا کی رکن بیرونس لوئس کیسی نے کہا کہ وہ اس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ قاتل وین کوزنز اور سیریل ریپسٹ ڈیوڈ کیرک جیسے مزید مجرم برطانیہ کی سب سے بڑی فورس میں چھپے ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’میں آپ کو مکمل یقین نہیں دلا سکتی کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ غلط یا ’خراب لوگ‘ نہیں ہیں، یہ پورے نظام کی منظم ناکامی ہے۔‘

360 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے اہم نتائج:

  • بہترین وسائل سے مالا مال دو یونٹس، سپیشلسٹ فائر آرمز کمانڈ اور پارلیمانی اور ڈپلومیٹک پروٹیکشن کمانڈ کا ماحول بدترین تھا۔
  • کفایت شعاری نے 2010 اور 2019 کے درمیان کٹوتیوں سے میٹ ڈیپارٹمنٹ کو ’کمزور‘ کیا جس سے متاثرہ خواتین کو ’ایک طرف پھینک دیا گیا۔‘
  • جنسی استحصال والے مقدمات کے ثبوت محفوظ کرنے والے فریج ٹوٹے ہوئے تھے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مقدمات ختم ہوگئے تھے۔
  • مبینہ گھریلو تشدد کرنے والے افراد، جن میں جنسی استحصال کا ایک ملزم افسر بھی شامل ہے، اب بھی محکمے میں ملازمت کر رہے ہیں۔

کمشنر سر مارک رولے نے بیرونس لوئس کیسی کے ’انتہائی پریشان کن جائزے‘ کا اعتراف کیا اور کہا کہ اس فورس میں نسل پرست، خواتین مخالف اور ہوموفوبیا کے خلاف نفرت ہے اور اس میں انتظامی ناکامیاں ہیں، لیکن انہوں نے ادارہ جاتی نسل پرستی، خواتین دشمنی اور ہوموفوبیا کے لیبل کو اپنانے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا: ’مجھے عملی، غیر مبہم اور غیر سیاسی زبان استعمال کرنی ہوگی۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اصطلاح ان معیاروں پر پورا اترتی ہے، اس کا مطلب مختلف لوگوں کے لے چیزیں مختلف ہیں۔ یہ ایک خیال کے طور پر کافی سیاسی ہو گیا ہے۔‘

کئی سکینڈلز کے بعد ڈیم کریسیڈا ڈک کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد تعینات کیے گئے کمشنر نے مزید کہا: ’میں اس اصطلاح کو استعمال کرنے کے لیے دوسروں کی وجوہات کا مکمل احترام کرتا ہوں لیکن یہ ایسی اصطلاح نہیں ہے جسے میں خود استعمال کروں۔۔۔ ہم اسے استعمال نہیں کریں گے۔‘

سر مارک رولے نے زور دے کر کہا کہ انہیں رپورٹ کی اہمیت کے بارے میں ’کوئی غلط فہمی نہیں‘ اور وہ ’پولیس افسران کے تباہ کن اور مجرمانہ واقعات‘ کے بعد سامنے آنے والی ناکامیوں پر معافی مانگتے ہیں۔

انہوں نے ’بنیادی اصلاحات‘ کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلیاں پہلے ہی ان واقعات میں ملوث افسران کی طرف سے پیدا ہونے والے ’خطرے کو کم‘ کر رہی ہیں۔

رپورٹ میں بیرونس کیسی کا کہنا ہے کہ برسوں کی کفایت شعاری نے فورس کو ’کمزور‘ کر دیا ہے۔ اخراجات کے انتخاب نے ’بنیادی طور پر خواتین اور خواتین کے تحفظ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ کیونکہ گھریلو تشدد جیسے جرائم سے نمٹنے والی ٹیموں کی بجائے ماہر یونٹوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بہترین وسائل رکھنے والے دو یونٹس سپیشلسٹ فائر آرمز کمانڈ اور پارلیمانی اور ڈپلومیٹک پروٹیکشن کمانڈ، جہاں کیرک اور کوزنز نے خدمات انجام دیں، بدترین ماحول رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اشرافیہ کے رویوں اور غنڈہ گردی، نسل پرستی اور جنس پرستی جیسے زہریلے کلچر کے ساتھ عام قوانین لاگو یا لاگو ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔

یہ نتائج اس وقت سامنے آئے جب ایک خاتون نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے سابق پارٹنر، جو ایک حاضر سروس میٹروپولیٹن پولیس افسر ہیں، تحقیقات میں مداخلت کرنے اور اپنے فون سے ممکنہ شواہد حذف کرنے کے بعد گھریلو تشدد کے مقدمے سے صاف بچ نکلے تھے۔

انہیں محدود ڈیوٹی پر رکھا گیا، لیکن معطل نہیں کیا گیا، کیونکہ سکاٹ لینڈ یارڈ اس بات پر غور کر رہا ہے کہ آیا پرتشدد اشتعال انگیزی اور کنٹرول اور جبری رویے کے الزامات پر تادیبی کارروائی کی جائے یا نہیں۔

خواتین، ہم جنس پرست یا سیاہ فام افسران کے خلاف امتیازی سلوک، غنڈہ گردی اور ہراسانی کی متعدد مثالیں موجود تھیں، جن کے ذمہ داروں کو شکایات کے بعد چھوڑ دیا جاتا تھا یا یہاں تک کہ ترقی بھی دی جاتی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’ہم نے میٹ ڈیپارٹمنٹ میں ادارہ جاتی نسل پرستی، خواتین سے نفرت اور ہوموفوبیا پایا ہے۔ کانسٹیبل کے عہدے کا غلط استعمال کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کے خلاف نگرانی کی عدم موجودگی میں پرتشدد اور ناقابل قبول طرز عمل کو پھلنے پھولنے دیا گیا۔‘

اس جائزے میں افسران کی جانب سے عوام اور ان کے اپنے ساتھیوں، دونوں کے خلاف بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے متعدد ہولناک واقعات کی تفصیلات پیش کی گئیں۔

ایک خاتون افسر نے بتایا کہ کس طرح وہ ایک مرد ساتھی کی جانب سے ریپ اور گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں، جو اطلاع اور ثبوت دینے کے باوجود فورس میں موجود ہے۔

سارہ ایورارڈ کے قتل کے چند روز بعد انہیں ڈائریکٹوریٹ آف پروفیشنل سٹینڈرڈز کی جانب سے ایک سطر پر مشتمل ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

خاتون افسر نے کہا: ’میٹ یہ کہہ رہا تھا کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سے نفرت کرتے ہیں، ہم اس کے خلاف کھڑے ہیں،‘ اور میں سوچ رہی تھی، ’نہیں، ایسا نہیں ہے۔‘

انہوں نے سوال کیا: ’کیا مجھے مرنا ہوگا تاکہ آپ مجھے سنجیدگی سے لیں اور اس طرح کی چیزوں کو دیکھیں؟‘

جائزے میں سامنے آیا کہ موجودہ عمل ’برے افسران کو مؤثر انداز میں جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتا،‘ اور یہ کہ بھرتی اور جانچ پڑتال کے حفاظتی اقدامات ناقص ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ میٹ ڈیپارٹمنٹ اپنی خواتین ملازمین اور شہریوں کو گھریلو تشدد کرنے والوں اہلکاروں یا افسران سے بچانے میں ناکام رہا ہے جو اپنے عہدے کو جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’میٹ کے اس بیان کے باوجود کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد (کے حوالے سے کارروائی) ایک ترجیح ہے، ’سنگین تشدد‘ سے مختلف سلوک کیا گیا۔ اسے ریسورسنگ اور ترجیح دینے کے معاملے میں اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔‘

بیرونس لوئس کیسی کے جائزے سے پتہ چلتا ہے نسل پرستانہ اور بدسلوکی کے وٹس ایپ پیغامات پر ہائی پروفائل برخاستگی کے بعد افسران اپنے ثبوت مٹانا بھی سیکھ رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’کچھ افسران کو یہ جاننے کے لیے ایک حربہ سکھایا جاتا ہے کہ وٹس ایپ، سگنل یا ٹیلی گرام گروپ کسی طرح سے’ کمپرومائزڈ‘ تو نہیں ہوا۔

’اس کے بعد افسران فوری طور پر وہ گروپ چھوڑ دیتے ہیں، اپنا مواد حذف کر دیتے ہیں اور ایک نئے نام سے ایک نیا گروپ بنا لیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیرونس لوئس کیسی نے میٹ ڈیپارٹمنٹ سے ’خود کو تبدیل کرنے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا: ’بحیثیت عوام یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم خود کو پولیس سے بچائیں۔ یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ ہمیں عوام کی حیثیت سے بچائیں۔

’لندن کے بہت سے لوگ اب ایسا کرنے کے لیے پولیس پر سے اعتماد کھو چکے ہیں۔‘

انہوں نے فورس کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ سٹیفن لارنس کے قتل سے متعلق برسوں سے جاری رپورٹوں پر ’ٹک باکس‘ والا رویہ نہ دہرائیں اور متنبہ کیا کہ اگر اس میں بہتری نہیں آئی تو شاید میٹ ڈیپارٹمنٹ کو ختم کی ضرورت پڑے۔

اس رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’میٹ نہ تو تنقید کو آسانی سے قبول کرتا ہے اور نہ ہی اپنی ناکامیاں مانتا ہے۔ صرف نظر کرنے کے اس رجحان کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس رپورٹ میں جن مسائل کو اجاگر کیا گیا ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں پہلے بھی معلوم کیا جا چکا ہے، ان کی رپورٹنگ ہوچکی ہے اور ان کی تحقیقات کی جا چکی ہیں۔‘

جائزے میں 16 سفارشات پیش کی گئیں اور کہا گیا کہ یہ تبدیلیاں محکمہ میٹ، میئر آفس برائے پولیسنگ اینڈ کرائم اور ہوم آفس کی جانب سے کی جائیں تاکہ ’بنیادی طور پر بہتر‘ فورس تشکیل دی جا سکے۔

ہوم سیکرٹری سویلا بریورمین نے کہا کہ وہ سر مارک کو ’فورس کی ثقافت میں تبدیلی لانے کا ذمہ دار‘ ٹھہرائیں گی۔

سویلا بریورمین نے مزید کہا: ’حکومت بھی پولیس میں ثقافت، معیار اور طرز عمل کو بہتر بنانے کے لیے کام کو آگے بڑھا رہی ہے، جس میں جانچ پڑتال کو مضبوط بنانا اور برطرفی کے عمل کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔‘

لندن کے میئر صادق خان کا کہنا تھا کہ یہ جائزہ ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا: ’میں نئے کمشنر کی حمایت اور ان کا احتساب کرنے کے عزم میں غیر متزلزل رہوں گا کیونکہ وہ فورس کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا