اردن کی پارلیمان کا اسرائیلی سفیر کی ملک بدری کے حق میں قرارداد

یہ ووٹنگ اس وقت ہوئی ہے جب اسرائیلی وزیرِ خزانہ نے ایک کانفرنس کے دوران فلسطین اور فلسطینوں کے وجود سے انکار کر دیا تھا۔

اردن کی پارلیمان نے ووٹنگ کے دوران اردن اور فلسطین کا نقشہ سامنے دکھایا (انڈپینڈنٹ عربیہ)

اردن کی پارلیمنٹ نے اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے ایک وزیر کے رویے کے خلاف احتجاجاً اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے حق میں قرارداد منظور کر لی ہے۔

الجزیرہ نیٹ ورک کے مطابق بدھ کی شام کو ہونے والے اجلاس کے دوران پارلیمان کے سپیکر احمد الصفادی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے بیان کے خلاف کارروائی کرے۔

سموٹریچ نے رواں ہفتے فلسطینی عوام کے وجود سے انکار کے بعد تنازع کھڑا کر دیا تھا۔

فلسطینی اتھارٹی اور مصر نے اسرائیلی وزیر کی تقریر کو ’نسل پرستانہ‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے، جب کہ عمان نے اسرائیلی سفیر کر طلب کر کے ان سے وضاحت مانگی ہے۔

اخبار ’گلف نیوز‘ کے مطابق سموٹریچ پیرس میں ایک کانفرنس کے دوران ایک ایسے پوڈیم پر بات کر رہے تھے جہاں ایک جھنڈے پر وسیع تر یہودی ریاست کے نقشہ موجود تھا جس میں اردون اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

سموٹریچ نے اتوار کو کہا تھا، ’فلسطینیوں کا وجود نہیں ہے کیونکہ فلسطین نامی کسی ریاست کا وجود نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ عربیہ کے مطابق پارلیمنٹ کے سپیکر احمد صفادی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کے خلاف موثر اور موثر اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایسی چیز ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، اور یہ اردن اور اسرائیل کے درمیان 1994 میں طے پانے والے امن معاہدے اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے اردنی پارلیمنٹ کا ووٹ حکومت پر پابند نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سفارش پر ردعمل کے امکانات کمزور ہیں، اس لیے کہ پارلیمنٹ اپنے قیام سے لے کر آج تک درجنوں بار اسی فیصلے پر ووٹنگ کر چکی ہے۔ 

اردن کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی اور مصر نے بھی اسرائیلی وزیر کے متنازع بیان کو ’نسل پرست‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سموٹریچ نے اس سے پہلے مارچ کے اوائل میں بھی مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک فلسطینی گاؤں کو صفحہ ہستی سے ’مٹانے‘ کا مطالبہ کر کے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔

فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ نے پیر کو کابینہ کے اجلاس سے قبل کہا تھا کہ ’سموٹریچ کے اشتعال انگیز بیانات نے موجودہ اسرائیلی حکومت کے انتہا پسند، نسل پرست صہیونی نظریے کا حتمی ثبوت فراہم کیا ہے۔‘

سموٹریچ نے کہا تھا کہ ’دو ہزار سال کے بعد خدا اپنے لوگوں کو اکٹھا کر رہا ہے۔ اسرائیل کے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے اسرائیلی وزیر کے بیانات کو ’مکمل طور پر غیر مددگار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات ظاہر ہے کہ فلسطینی عوام وجود رکھتی ہے۔‘

فرحان حق نے مزید کہا: ’ہم ان (فلسطینیوں) کے حقوق کی حمایت جاری رکھیں گے اور دو ریاستی حل کے لیے زور دیں گے۔‘

اردن میں ہونے والے اجلاس کے دوران ارکان پارلیمنٹ نے سموٹریچ کی موجودگی میں گریٹر اسرائیل کے جھنڈے کے جواب میں اردن اور فلسطین کے جھنڈے بھی لہرائے۔

پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کی گئی اس قرارداد کے ردعمل میں اردن کے نائب وزیر اعظم توفیق قرشان نے کہا کہ اس واقعے کے نتیجے میں اردن کے عوام متحد ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’اردن کا نقشہ صرف اردن کے باشندوں نے کھینچا ہے۔‘

1948 اور 1967 میں ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑنے والے اسرائیل اور اردن نے 1994 میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا