جب چترال میں غلاموں کی تجارت کھلے عام ہوتی تھی

غلامی کے شکار افراد کی یاد منانے کے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی تحریر۔

کافرستان میں ایک زمانے میں انسانی تجارت عام تھی (فائل فوٹو/پبلک ڈومین)

قدیم زمانوں میں غلامی دنیا کے اکثر علاقوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں انسانوں کو غلام بنانےاور تجارت کرنے کے خلاف بھی محدود پیمانے پر بحثیں اور قانون سازیاں ہوتی رہیں۔

اٹھارویں صدی کے وسط کے بعد یورپ اور پھر امریکہ میں ان مباحثوں اور قانون سازیوں میں تیزی آئی۔ برطانیہ نے ہندوستان سمیت اپنی دوسری کالونیوں میں غلامی کے خلاف اصلاحات کیں تو دوسری طرف روس میں بھی اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

مگر برطانوی ہندوستان اور روس کے بیچ وسط ایشیا اور افغانستان سمیت کچھ خودمختار علاقے ایسے تھے جہاں غلامی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے یہ عمل وہاں برابر جاری رہا۔ ان علاقوں میں موجود منڈیوں کو غلاموں کی ترسیل جن علاقوں سے ہوتی تھی ان میں چترال بھی شامل تھا۔

چترال میں غلام بنانے کا رواج کب اور کیسے شروع ہوا اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ محققین کے نزدیک چترال میں یہ رجحان وسط ایشیا اور بدخشان سے آیا جہاں غلامی عام تھی۔ اس زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا بھی عام تھا۔ چترال میں بردہ فروشی کی سرپرستی مقامی حکمران کرتے تھے جنہیں چترال میں ’مہتر‘ کہا جاتا تھا۔

کسی کو غلام بنانے، اسے بیچنے یا چترال کے اندر ہی کسی بااثر شخص کی خدمت میں دینے کا فیصلہ خود مہتر کا ہوتا تھا (حوالدار، 197)۔ غلام کو چترال سے باہر فروخت کرنے کے بعد حاصل شدہ معاوضہ بھی مہتر وصول کرتا تھا۔

چترال میں غلاموں کی تجارت

چترال میں غلاموں کی خرید و فروخت کس پیمانے پر کی جاتی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1880 میں انگریزوں نے ’گزیٹیئر آف ایسٹرن ہندوکش‘ کے نام سے ایک دستاویز مرتب کی تھی جس میں چترال میں غلاموں کی تجارت کو ریاست کی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’چترال اور یاسین میں اپنے ہی رعایا کو غلام بنا کر بیچنے کا عمل وہاں کے حکمرانوں کے لیے ان لوگوں کے درمیان میں بھی شدید بدنامی کا باعث بن گیا ہے جہاں ابھی تک غلامی کو اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جس طرح یورپ میں سمجھا جاتا ہے (گزیٹ، 93)۔ غلاموں کی لین دین مہتر کے وزیرِ خزانہ جسے دیوان بیگی کہا جاتا تھا، کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل تھی (بڈلف، 67)۔

اسی طرح چترال سے متعلق انگریز افسروں اور مہم جوؤں کی لکھی اکثر یادداشتوں، رپورٹوں اور کتابوں میں چترال غلامی اور ان کی تجارت کا ذکر ملتا ہے۔ چترال پر تحقیق کرنے والے اطالوی محققین، کاکو پارڈو برادران کے مطابق اٹھارویں صدی کے آخر میں ہر سال چترال سے 500 لوگ بطورِ غلام چترال سے باہر بیچے جاتے تھے اور چترال کے اندر کوئی بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں سے کسی کو اٹھا کر فروخت نہ کیا گیا ہو۔ (گیٹس آف پرستان، 59 )۔

چترال کے غلاموں کو جن منڈیوں میں لے جایا جاتا تھا ان میں خیوہ، یارقند، خوقند، بخارا، ترکستان، قندوز، فیض آباد، جلال آباد اور کابل شامل تھے (منشی 132، فیض، 10)۔

چترال کے مشہور شاعر بابا سیئر کی منظوم تاریخِ چترال ’شاہ نامہ سیئر‘ جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اولین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا تھا۔

اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بنا کر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں۔ شاہ نامہ سیئر میں اس حملے اور غلاموں کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے۔

بغارت چناں رفتِ ملکِ واخان کہ سرتا بپا شُد ہمہ خاکدان
اسیران و بندی فزوں از شمار ز اسپان و گاؤ و شتر صد قطار

سیہ چشم، ترکان، سیمی زقن شکر لب کنیزان و شیرین دہن
اسیران و رخت بنہُ بیحساب چہ ریگِ بیابان و دریائے آب

(غلام مرتضیٰ، 80)

اسی محترم شاہ کے بھائی شاہ نواز نے بھی چترال پر حکومت کی تھی جس کی بعد میں معزولی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے حد سے زیادہ بردہ فروشی کی جس کی وجہ سے لوگوں میں اپنی مقبولیت کھو دی (غلام مرتضیٰ، 83)۔

جس دور میں چترال کے حکمران بدخشان کو خراج پیش کرتے تھے اس وقت یہ خراج غلاموں کی صورت میں دیا جاتا تھا (منشی، 132)۔

غلاموں کی قیمت

ایک غلام کی قیمت عموماً 100 روپے سے لے کر 300 روپے تک ہوتی تھی اور اس قیمت کا دارومدار غلام کی عمر، جنس اور خوبصورتی پر ہوتا تھا ( گزٹ، 58)۔

کہا جاتا ہے کہ ترکستان کی منڈیوں میں ایرانی غلاموں کے بعد سب سے زیادہ مانگ چترال سے آئے غلاموں کی ہوتی تھی اور اس کی وجہ ان کی خوبصورتی کے ساتھ مالک کے ساتھ وفاداری اور اس کی فرمانبرداری بھی تھی (منشی، 132)۔

مردوں کی قیمت 100 روپے سے 200 روپے تک تھیں اور عورتوں کی قیمت 200 روپے سے 300 روپے تک (فیض، 11)۔ مگر غلام کے بدلے ہمیشہ پیسے حاصل نہیں کیے جاتے تھے بلکہ غلام دوسری ضروریاتِ زندگی کے عوض بھی فروخت ہوتے تھے جن میں گھوڑا، اسلحہ، قالین، برتن حتی کہ بعض دفعہ گدھا یا خچر بھی شامل ہوتا تھا۔ اسی طرح بچوں کو بھی قلیل قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔

چترالی غلام شاہی حرموں میں

یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ غلام ہمیشہ فروخت ہی نہیں کیے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات مہترِ چترال عورتوں کو جبراً ہمسایہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بطورِ تحفہ بھی پیش کرتا تھا۔

چترالی خواتین اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھیں اس لیے کشمیر، کابل اور بدخشان کے حکمرانوں اور امرا کے حرم میں چترالی عورتیں شامل تھیں جو یہاں کے حکمران نے انہیں خوش سگالی کی نشانی کے طور پر بھیجی تھیں(بڈلف، 67)۔

چترالی غلاموں کو ان کی وفاداری کے باعث پسند کیا جاتا تھا (فیض، 11)۔ ہمسایہ حکمرانوں کو بھیجے جانے والے غلاموں میں عورتیں ہی نہیں خوبرو لڑکے بھی شامل ہوتے تھے (میکنک اف فرنٹیر 46)۔

خود مہتر کے حرم میں بھی لونڈیاں ہوتی تھیں جنہیں ’قُمائی‘ کہا جاتا تھا مگر ان کے غلام ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ لونڈیاں عموماً زرخرید غلام نہیں ہوتی تھیں بلکہ اکثر آزاد خواتین ہوتی تھیں جنہیں مہتر سے ذاتی مراسم بڑھانے یا مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کے حرم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔

کچھ جبراً بھی قمائی بنائی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے چترال کی لوک روایت میں مشہور ہے کہ رئیسہ دورِ حکومت میں مقامی علما نے مہتر کو ایک فتوے کے ذریعے اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ رعایا میں سے کسی بھی عورت کو ’قُمائی‘ کے طور پر رکھ سکتا ہے کیوں کہ چترال کی تمام رعایا مہتر کے غلام ہیں۔

 غلام کسے بنایا جاتا تھا؟

قدیم زمانے میں چترال کا معاشرہ مختلف پرتوں پر مشتمل تھا۔ نسل، قبیلہ، طاقت اور سیاسی اثرپذیری کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان میں اشرافیہ کو ’آدم زادہ،‘ متوسط طبقے کو ’یوفت‘ اور نچلے طبقے کو ’فقیر مسکین‘ کہا جاتا تھا۔ مہتر کو یہ خود ساختہ اختیار حاصل تھا کہ آدم زادہ کے علاوہ کسی سے بھی زمینیں اور جائیداد چھین کر انہیں غلام قرار دے سکتا تھا یا چاہے تو چترال سے باہر فروخت کر سکتا تھا۔

فقیر مسکینوں میں سے کچھ تو ’چھیرموژ‘ یعنی مزارع تھے جو زمینوں کے عوض کسی کے ہاں کام کرتے تھے اور اگر کام کرنا نہ چاہیں تو زمین مالک کو لوٹا کر مشقت سے آزاد ہو سکتے تھے۔

کچھ وہ لوگ تھے جو غلام تھے۔ انہیں ’خانہ زاد‘ کہا جاتا تھا۔ ان کی مشقت کے بدلے انہیں زمین یا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ یہ آدم زادہ کی ملکیت میں ہوتے تھے۔ مالک چاہے تو ان کی خرید و فروخت کر سکتا تھا (غلام مرتضیٰ، 150)۔

انہیں ’ڈق‘ اور ’روئے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ غلام عورتوں کو آدم زادہ اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز کے طور پر دلہن کے ساتھ بھیجتے تھے جنہیں ’رُومتوُ دیرو‘ کہا جاتا تھا۔ خانہ زادوں کی اولاد بھی غلام تصور ہوتی تھی۔

نچلے طبقے کے کسی شخص سے کوئی بڑا جرم سرزد ہو جاتا تھا تو سزا کے طور پر اسے فروخت کیا جاتا۔ بعض اوقات سزا کے طور پر کسی شخص کو قتل کر کے پیچھے رہ جانے والے اس کے گھر والوں کو فروخت کیا جاتا تھا۔

ریاست میں کوئی شخص کسی بات پر مہتر کی ناراضی کا سبب بنتا تو مہتر اس شخص کو ایک ریاستی عہدیدار ’دیوان بیگی‘ کے حوالے کرتا تھا جو اسے غلام بنا کر بیچ دیتا تھا۔ (بڈلف، 67)۔

اسی طرح جنگی قیدیوں خصوصاً گلگت سے حملہ آور ہونے والے شیعہ اور ڈوگرہ فوجیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا (فیض، 6)۔

انگریزوں کے لیے 1883 میں مرتب کی گئی ایک خفیہ رپورٹ میں برٹش انٹیلیجنس کے ایک دیسی افسر فیض بخش نے لکھا ہے کہ اگر آدم زادوں‘ میں سے کوئی قتل کا مرتکب ہوتا تو بجائے اس کو سزا دینے کے، اس خاندان کے لوگوں کو غلام بنا کر بیچا جاتا ہے جہاں اس کی رضاعت اور پرورش ہوئی ہو۔

اسی طرح قرض داروں، چوری کے مرتکب ہونے والوں یا اکیلے سفر کرنے والے مسافروں کو بھی غلام بنا کر فروخت کیا جاتا تھا بشرطیکہ وہ غریب اور نچلے طبقے سے ہو۔ کٹور دورِ حکومت میں مہتر امان الملک نے بیوہ خواتین اور لاوارث یتیموں کو غلام بنا کر بیچنے کے رواج کو جلا بخشی (گیٹس آف پرستان)۔

اس کے علاوہ مہتر جب چاہے بغیر کوئی وجہ اور جواز پیش کیے کسی کو بھی غلام بنانے پر قادر تھا۔

کالاش قیبلہ نشانے پر 

غلام بننے والوں میں ایک بڑی تعداد کالاش قبیلے کی ہوتی تھی۔ قدیم زمانے میں افغانستان کے موجودہ علاقے نورستان کو کافر ستان کہا جاتا تھا۔ کافرستان میں چترال کے موجودہ کالاشوں سے ملتی جلتی ایک قوم موجود تھی جسے کابل کے حکمران امیر عبدالرحمٰن نے انیسویں صدی کے آخر میں جبراً مسلمان بنایا اور کافرستان کا نام بدل کر نورستان رکھ دیا۔

اس سے پہلے مہترِ چترال کی طرف سے کافرستان پر حملے کر کے انہیں غلام بنانا معمول تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ غلامی کا شکار ہونے والوں میں صرف مقامی اسماعیلی اور کالاش شامل تھے، مگر لگتا ہے کہ اس میں مسلک اور عقیدے سے زیادہ سماجی طبقات کا خیال رکھا جاتا تھا (منشی، 132)۔

رقت انگیز مناظر

کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھا انہیں قلعے میں جمع کیا جاتا تھا جہاں سے تاجر انہیں خرید کر لے جاتے تھے۔ ان کی رخصتی کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے تھے اور قیدی دھاڑیں مار تے ہوئے روتے اور آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے جو مہتر اور ان کے گھر والوں پر گراں گزرتا تھا۔

ایک کہانی کچھ یوں ہے ایک دفعہ کسی مہتر نے حکم دیا کہ غلاموں کی رخصتی کے وقت شاہی ڈوم ڈھول اور شہنائی بجایا کریں تاکہ قیدیوں کی آہ و فغان کی آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچ پائے۔ ہوا یوں کہ ایک بار مہتر کے چھوٹے بچے کا کسی وجہ سے انتقال ہو گیا اور مہتر کے گھر والوں نے ماتم شروع کیا۔

رونے کی آواز جب ڈھول بجانے والوں کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے سوچا کہ شاید غلاموں کی رخصتی ہو رہی ہے چنانچہ انہوں نے قلعے کے برجوں پر چڑھ کر ڈھول پیٹنا شروع کیا، جس کے بعد ظاہر ہے مہتر نے ان کی خوب سرزنش کی۔

اسی طرح اس تحقیق کے دوران چترال کے گاؤں ژوغور کے ایک باشندے نے ہمیں بتایا کہ ان کا پڑدادا کابل سے واپس چترال آ رہا تھا جب راستے میں انہیں ایک خاتون ملی جسے بدخشان کے تاجر مہتر سے خرید کر اپنے ساتھ لے جا رہے تھے۔

اس عورت نے اس شخص کی منت سماجت کی کہ وہ انہیں خرید کر واپس چترال لے جائیں اور بدلے میں انہیں اپنی زمین دینے کا وعدہ کیا۔ وہ شخص نے 240 روپے تاجر کو دے کر عورت کو چھڑا کر اپنے ساتھ چترال لے آیا اور بدلے میں ان کے گھر والوں سے زمین حاصل کی جو اب بھی ان کے خاندان کے پاس ہے۔

فیض بخش نے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، اپنی رپورٹ میں مہتر کو پیش کی گئی ایک درخواست درج کی ہے جو درجہ ذیل ہے:

’میں ایک غریب عورت ہوں۔ پچھلے سال آپ کے اہلکاروں نے میرے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اٹھا کر بخارا میں بیچ دیا تھا۔ اس سال آپ کا ایک افسر میرے آخری بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ خدا کے لیے اس کی بازیابی کا حکم دیجیے۔ میں آپ کی خوش حالی کے لیے دعائیں کیا کروں گی۔‘ 

مہتر نے اس درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی۔

اس سے ملتی جلتی ایک اور رپورٹ میں چترال اور بدخشان کے عمائدین کے بیچ ہونے والی ایک ملاقات کی روداد بیان کی گئی ہے جہاں چترال کی طرف سے بدخشان کے وفد کو 21 غلاموں کا تحفہ پیش کیا جاتا ہے (حوالدار، 199)۔

چترال میں غلامی کب ختم ہوئی؟

برطانوی نو آبادیات اپنی تمام منفی پہلوؤں کے باوجود چترال کی رعایا کے لیے کئی حوالوں سے رحمت ثابت ہوئی۔ مہتر امان الملک کے انگریزوں سے اچھے تعلقات تھے۔ انگریز حکام نے مہتر کے ساتھ خط و کتابت میں چترال میں غلاموں کی تجارت کے خاتمے کا بارہا ذکر کیا ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے گویا چترال کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات جن چیزوں سے مشروط ہے ان میں ایک غلامی کا خاتمہ بھی ہے۔

انیسویں صدی کے آخر میں افغانستان پر انگریزوں اور وسط ایشیا پر روسیوں کا اثر بڑھنے کے ساتھ ہی ان علاقوں میں غلاموں کی منڈیوں پر پابندی لگنی شروع ہوئی اور نتیجتاً چترال میں غلاموں کی تجارت بھی سکڑ گئی (فیض، 11)۔

 امان الملک کی 1892 میں وفات کے بعد تختِ چترال پر قبضے کی غرض سے شاہی خاندان میں لڑائیاں شروع ہوئی۔ یہ روس اور برطانیہ کے بیچ جاری ’گریٹ گیم‘ کا دور تھا اور انگریز چترال کو اپنے اور روس کے بیچ بفر زون کے طور پر دیکھتے تھے۔

وہ اس اہم ریاست میں انتشار اور بدامنی نہیں دیکھنا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے 1895 میں کم عمر شجاع الملک کو تختِ چترال پر بٹھایا۔ شجاع الملک کی حیثیت کٹھ پتلی حکمران کی سی تھی اور حقیقی اختیارات چترال میں تعینات پولیٹکل ایجنٹ کے پاس ہوتے تھے۔

اس وقت انگریزوں کو موقع مل گیا اور انہوں نے چترال میں غلاموں کی خریدو فروخت کو یکسر ختم کر دیا (غلام مرتضیٰ، 150)۔

البتہ چترال کے اندر جو غلام تھے ان کے حوالے سے کوئی خاص قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چترال میں دوسرے علاقوں کے برعکس اشرافیہ اپنی خدمت کے لیے غلاموں کے بجائے مزارعوں یعنی چھیرموژوں پر زیادہ انحصار کرتی تھی۔

شنید ہے کہ خانہ زادوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی اور مقامی لوگوں کا ان سے رویہ بھی کچھ زیادہ برا نہیں تھا۔ اس لیے ان کے حوالے سے کسی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس چھیرموژوں کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی اور 1950 اور پھر 1970 کی دہائی میں تحریکیں بھی چلیں جن میں سے اول الذکر کی قیادت چترال مسلم لیگ نے کی تھی (غلام مرتضیٰ، 1957)۔

لوگوں کو جبراً غلام بنا کر دورداز علاقوں میں بیچنے کا رواج بلاشبہ چترال کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا۔ ان جیسے رواجوں کی وجہ سے ہی چترال کے لوگ مہتری نظام کو جبر کے نظام کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ یہ شاید انہی رواجوں کا نتیجہ ہے کہ چترال میں آج بھی سنگین ظلم کو ’مہتری ظلم‘ کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات:

Report on Chitral by Faiz Bakhsh, 1883

Chitral, A Study in Statecraft by IUCN, 2004

The Making of the Frontier by Colonel Algernon Durand, 1900

Report on Chitral by Faiz Bakhsh, 1883

Gates of Peristan: History, Religion & Society in the Hindukush, by Alberto M. Cacopardo & Augusto S. Cacopardo, 2001

Tribes of the Hindoo Koosh by J. Bidulph, 1880

Gazetteer of the Eastern Hindukush, by Capt E. G. Barrow, 1888

On Gilgit and Chitral. By Munphool Meer Moonshee, C.S.I., of the Punjab Secretariate, Proceedings of the Royal Geographical Society of London, Vol. 13, No. 2 (1868 - 1869)

A Havildar’s Journey through Chitral to Faizabad, by Montgomerie, 1872

تمدنِ چترال، شہزادہ حسام الملک، (غیر مطبوعہ)

تاریخِ چترال (فارسی)، غلام مرتضیٰ، 1957

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ